مسکراتے رہے غم چھپاتے رہے، محفلوں محفلوں گنگناتے رہے
موت کے تیرہ و تار شمشان میں زندگی کے کنول جگمگاتے رہے
غزلیں کمھلا گئیں، نظمیں مرجھا گئیں، گیت سنولا گئے ، ساز چپ ہو گئے
پھر بھی اہل چمن کتنے خوش طبع تھے، نغمۂ فصلِ گل گنگناتے رہے
تیری سانسوں کی خوشبو، لبوں کی مہک جانے کیسے ہوا ئیں اڑا لائی...