بشیر بدر مسکراتے رہے غم چھپاتے رہے

فہد اشرف

محفلین
مسکراتے رہے غم چھپاتے رہے، محفلوں محفلوں گنگناتے رہے
موت کے تیرہ و تار شمشان میں زندگی کے کنول جگمگاتے رہے​

غزلیں کمھلا گئیں، نظمیں مرجھا گئیں، گیت سنولا گئے ، ساز چپ ہو گئے
پھر بھی اہل چمن کتنے خوش طبع تھے، نغمۂ فصلِ گل گنگناتے رہے

تیری سانسوں کی خوشبو، لبوں کی مہک جانے کیسے ہوا ئیں اڑا لائی تھیں
رات کا ہر قدم کچھ بہکتا رہا، وقت کے پاؤں بھی ڈگمگاتے رہے

جیسے کشمیری جھیلوں کے آغوش میں ننھے ننھے ستارے اتر آئے ہوں
رات ان نیلی آنکھوں میں کچھ ایسے ہی آنسوؤں کے دئے جھلملاتے رہے

اے مری زندگی تونے بھولے سے بھی ہم غریبوں کے جانب نہ دیکھا کبھی
اور ہم تو تری عظمتوں کے لئے سر کٹاتے رہے جاں گنواتے رہے

تیرے لب کی مہک میرے بازو کا بل تیری آنکھوں کا رس میرے ہاتھوں کا جس
سالہا سال سے جنسِ بازار ہیں صاحبِ نقد بولی لگاتے رہے

رات موسم بہت ہی خطرناک تھا ، اس پہ یادوں کی زلفیں بھی لہرا گئیں
دیر تک دل سے تیری ہی باتیں رہیں بھولی بسری کہانی سناتے رہے
 
Top