کچھ دنوں سے ایک دو مصرعے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ انہیں ایک غزل کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔
جو ہم نہ ہوں تو ہے کس کام کی یہ رعنائی
ڈبو کے چھوڑے گا تم کو یہ زعم یکتائی
اگر چہ کہہ تو دیا تم نے جو میں چاہتا تھا
وہ زیر و بم نہ تھے لیکن شریک گویائی
چراغ ڈستے رہے میری تیرہ راتوں کو
سحر نہ بن سکی...