(مصرع)
"عشق بیر درددیر، سۏنا، یۏخ یئر اۆزۆنده مرهمی"
(سۏنا خیال)
اے 'سونا'! عشق ایک [ایسا] درد ہے [کہ] جس کا رُوئے زمین میں [کوئی] مرہم موجود نہیں ہے۔
Eşq bir dərddir, Sona, yox yer üzündə mərhəmi
× شاعرہ کا تعلق جمہوریۂ آذربائجان سے ہے۔
خلق کُفر اهلینه ایمان عرض ائدر، من دمبهدم
کُفرِ زُلفۆن ائیلرم کؤکسۆمدهکی ایمانه عرض
(محمد فضولی بغدادی)
مردُم، اہلِ کُفر کو ایمان پیش کرتے اور دِکھاتے ہیں، [جبکہ] میں ہر لمحہ خود کے سینے میں موجود ایمان کو تمہاری زُلف کا کفر پیش کرتا اور دِکھاتا ہوں۔
جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط...
دل را ز جان عزیزتر آید هزار بار
تیری کزان دو نرگسِ مستانه میرسد
(خلیفهٔ عثمانی سلطان سلیم خان اول)
جو تیر اُن نرگس جیسی دو چشم ہائے مستانہ کی جانب سے آتا ہے وہ دل کو جان سے ہزار بار عزیز تر محسوس ہوتا ہے۔
فلک گر سِفله را عزّت دِهد خوارش کند آخر
هوا زد بر زمین برداشت بالا چون کفِ خاکی
(جُنیدالله حاذق)
فلک اگر شخصِ پست کو عزّت دیتا ہے تو آخرِ کار اُسے ذلیل کر دیتا ہے۔۔۔۔ ہوا نے جب کسی کفِ خاک کو بالا اُٹھایا تو [بعد ازاں] زمین پر دے مارا۔
نگاهم را تماشایِ گُل و شبنم نمیباید
من و در کُنجِ عُزلت یادِ رُخسارِ عرَقناکی
(جُنیدالله حاذق)
میری نگاہ کو تماشائے گُل و شبنم کی حاجت نہیں ہے۔۔۔ [فقط یہ کافی ہے کہ] میں ہوؤں، اور گوشۂ تنہائی میں اِک رُخسارِ عرَق ناک کی یاد ہو۔
مرا شورِ جنون از پندِ ناصح کم نمیگردد
چه امکان است راهِ شعله بندد مُشتِ خاشاکی
(جُنیدالله حاذق)
ناصح کی نصیحت سے میرا شورِ جنوں کم نہیں ہوتا۔۔۔ یہ کب ممکن ہے اِک مُشت بھر خس و خاشاک شُعلے کی راہ روک سکیں؟
----------------
یہ اِس دھاگے میں میرا تین ہزارواں مراسلہ ہے۔
فارسی شاعری میں نسوار کا ذکر:
افغان فارسی گو شاعر صوفی غلام نبی عشقری کو اِمرارِ معاش کے لیے ۱۳۰۹هش/۱۹۳۰ء میں کابل کے 'گُذرِ سنگتراشی' میں نسوار فروشی کی دُکان کھولنی پڑ گئی تھی۔ وہ اِس بارے میں کہتے ہیں:
از گردشِ زمانه و اِدبار روزگار
سوداگرِ خریطهٔ نسوار هم شدم
(صوفی غلام نبی عشقری)
گردشِ...
دشت توتماق عادتین قۏیموشدو مجنون عشقده
شُهرهٔ شهر اۏلماغېن رسمین من ائتدیم اِختراع
(محمد فضولی بغدادی)
عشق میں بیابان کا رُخ کرنے کی عادت مجنوں نے ڈالی تھی۔۔۔ [لیکن] شُہرۂ شہر (یعنی شہر میں مشہور و بدنام) ہونے کی رسم کو میں نے اِختراع کیا ہے۔
تشریح: شاعر مجنون پر طنز کرتے ہوئے اور خود کو اُس...
افغان محقِّق دکتور عبدالاحمد جاوید نے اپنی کتاب 'نوروزِ خوشآیین' میں لکھا ہے کہ یہ بیت ظہیرالدین بابر کی نہیں، بلکہ ابوالقاسم بابر میرزا بن بایسُنغُر بیگ بن شاہرخ میرزا بن تیمورِ لنگ کی ہے۔
پس نوشت: دانشگاہِ پنجاب، لاهور کے پرفسور دکتر محمد باقر نے بھی اپنے مقالے 'این شعر از کدام بابر است؟'...
مردُمان را خِرد و رای بِدان داد خدای
تا بِدانند بد از نیک و سُرود از قرآن
(فرُّخی سیستانی)
مردُم کو خدا نے عقل و فکر اِس لیے دی ہے تاکہ وہ بد و نیک اور نغمہ و قُرآن کے درمیان فرق کر سکیں۔
امیر ابواحمد محمد بن محمود غزنوی کی مدح میں کہے گئے ایک قصیدے می فرُّخی سیستانی ایک جا فرماتے ہیں:
چون مرا بُویهٔ درگاهِ تو خیزد چه کنم
رهی آموز رهی را و ازین غم بِرهان
(فرُّخی سیستانی)
جب مجھ میں تمہاری درگاہ کی آرزو اُٹھے تو میں کیا کروں؟۔۔۔ [مجھ] غُلام کو کوئی راہ سِکھاؤ اور اِس غم سے نجات دے دو۔
زمانه باز برافروخت آتشِ نمرود
که آشکار شود جوهرِ مسلمانی
(علامه اقبال لاهوری)
زمانے نے دوبارہ آتشِ نمرود مُشتعِل کی ہے تاکہ مسلمانی کے جوہر آشکار ہو جائیں۔
حدیثِ عشق به اهلِ هوَس چه میگویی
به چشمِ مور مکَش سُرمهٔ سلیمانی
(علامه اقبال لاهوری)
داستانِ عشق، اہلِ ہوَس سے کس لیے کہتے ہو؟ چیونٹی کی چشم میں سُرمۂ سُلیمانی مت کھینچو۔
× لُغت نامۂ دہخدا کے مطابق سُرمۂ سُلیمان/سُرمۂ سُلیمانی اُس سُرمے کو کہتے ہیں جس کو چشم پر کھینچنے سے عالَم کی مخفی چیزیں...
(دوبیتی)
خداوندا! دلم را بینِش آموز
چراغِ مُردهام را تابش آموز
به بُلبُل یاد دادی نغمهٔ صبح
مرا هم در دلِ شب نالِش آموز
(خلیلالله خلیلی)
اے خداوند! میرے دل کو بینِش و بصیرت سکھاؤ۔۔۔ میرے چراغِ مُردہ کو تابش سکھاؤ۔۔۔ تم نے بُلبُل کو نغمۂ صبح سکھایا۔۔۔ مجھے بھی نصف شب کے وقت نالہ [کرنا] سکھاؤ۔...
(دوبیتی)
اِلٰهی! راه دادی دیگران را
که بِکْشایند رازِ آسمان را
ز راه واماندگان را هم تکانی
که بِگْذارند این خوابِ گران را
(خلیلالله خلیلی)
اے خدا! تم نے دیگروں کو راہ عطا کی، کہ تاکہ وہ آسمان کے راز کو مُنکشِف کر لیں۔۔۔ [اب ذرا] راہ سے دور رہ جانے والوں کو بھی اِک حرَکت دو تاکہ وہ اِس خوابِ...
افغان شاعر خلیلالله خلیلی ایک نظم میں خود کے وطن افغانستان کو مُخاطَب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
به جایِ موج، خون میجوشد از انهارِ خندانت
به جایِ لاله، رُوید رنج، از طرفِ بیابانت
(خلیلالله خلیلی)
[اے میرے وطنِ افغانستان!] تمہارے خنداں دریاؤں سے موج کی بجائے خون اُبلتا ہے۔۔۔ تمہارے بیابان کے اطراف سے...