غزل
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا
ہنسا ہنسا کے شبِ وصل اشک بار کیا
تسلیاں مجھے دے دے کے بے قرار کیا
یہ کس نے جلوہ ہمارے سرِ مزار کیا
کہ دل سے شور اٹھا ہائے بے قرار کیا
سنا ہے تیغ کو قاتل نے آب دار...
میرے خیال میں اس آیت سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ اللہ علیم و خبیر ہے۔ تمام کائنات کے اسرار و رموز سے وہ آگاہ ہیں۔ لیکن اس آیت سے یہ کہیں ثابت نہیں ہو رہا کہ پتہ بھی اللہ سے پوچھ کر ہلتا ہے۔ یعنی صرف یہی کہا گیا ہے کہ ایک پتہ بھی جب ہلتا ہے تو وہ اس کے علم میں ہے۔
میں صرف سمجھنے کی غرض سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ ایمان کہاں سے آیا کہ کوئی پتہ بھی اللہ کی مرضی سے نہیں ہل سکتا۔ پتہ تو شاید نہ ہل سکتا ہوں لیکن انسان اپنے اعمال و اقوال میں خود مختار ہے اگر وہ خود مختار نہ ہو تو پھر جزا اور سزا سب بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں پھر تمام برائیاں بھی اللہ کی مرضی سے ہی پنپ...
ایک گاؤں کے مولوی صاحب خطبے میں فرمانے لگے معلوم نہیں کونسے نبی تھے، معلوم نہیں وہ کہاں جا رہے تھے کہ راستے میں انہیں ایک اور نبی ملے معلوم نہیں انہوں نے دوسرے نبی سے کیا کہا لیکن ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس نبی کی اس بات پر فورا ایمان لے آئیں۔
غزل بشکریہ ون اردو فورم
شبنم جو ملے خواہشِ دریا نہیں کرتے
ہم حد سے کبھی بڑھ کے تمنا نہیں کرتے
آنکھوں کے جزیروں میں بھی پانی نہیں ملتا
پیاسے ہیں مگر کوئی تقاضا نہیں کرتے
ہم راکھ ہوئے آتشِ خاموش میں جن کی
حیرت ہے کہ وہ لوگ تماشا نہیں کرتے
سیراب کرو دل کو اب اشکوں سے کہ بادل
اس خشک زمیں پر کبھی...