نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    گوتم کا آخری وعظ ۔ اسلم انصاری

    گوتم کا آخری وعظ مرے عزيزو مجھے محبت سے تکنے والو مجھے عقيدت سے سننے والو مرے شکستہ حروف سے اپنے من کی دنيا بسانے والو مرے الم آفريں تکّلم سے انبساطِ تمام کی لازوال شمعيں جلانے والو بدن کو تحليل کرنے والی رياضتوں پرعبور پائے ہوئے،سکھوں کو تجے ہوئے بے مثال لوگو حيات کی رمزِ آخريں کو...
  2. فرخ منظور

    اختر شیرانی کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا ۔ اختر شیرانی

    کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا۔ گلوکارہ: اقبال بانو
  3. فرخ منظور

    اختر شیرانی کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا ۔ اختر شیرانی

    احباب کا پسند فرمانے کے لئے بہت شکریہ!
  4. فرخ منظور

    حدود قوانین پر امیر جماعت اسلامی کا مضحکہ خیز موقف

    اگر کسی نے حدود آرڈیننس کا مطالعہ کیا ہے تو اس میں واضح درج ہے کہ چار گواہ ہوں جنہوں نے عملِ دخول دیکھا ہو۔ ظاہر ہے وہ چار گواہ کبھی بھی دستیاب نہیں ہو سکتے۔ اسی لئے مولانا ٹھیک فرما رہے ہیں کہ عورت کو یہ مسئلہ پبلک نہیں کرنا چاہیے۔ میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی اتنی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت تھی۔...
  5. فرخ منظور

    اختر شیرانی کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا ۔ اختر شیرانی

    کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا تم نہ ہوتے نہ سہی ، ذِکر تمہارا ہوتا ترکِ دنیا کا یہ دعویٰ ہے فُضول اے زاہد بارِ ہستی تو ذرا سر سے اُتارا ہوتا وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی ہجر میں کوئی تو غم خوار ہمارا ہوتا زندگی...
  6. فرخ منظور

    عبیداللہ علیم ان دنوں روح کا عالم ہے عجب ۔ عبید اللہ علیم

    ان دنوں روح کا عالم ہے عجب جیسے جو حسن ہے میرا ہے وہ سب جیسے اک خواب میں نکلا ہوا دن جیسے اک وصل میں جاگی ہوئی شب دل پہ کھلتا ہے اسی موسِم میں غم کسے کہتے ہیں اور کیا ہے طرب جس سے ہو جائے جہاں ہو جائے ہے محبت ہی محبت کا سبب جاں فزا ہے جو عطا کرتے رہو بوسۂ لب کی طرح بوسۂ لب...
  7. فرخ منظور

    سعود عثمانی احوال از سعود عثمانی

    احوال کس طرح رہے بھرم ہمارا یہ شعر و سخن ، یہ حرف و تمثیل یہ غم کے بھرے ہوئے پیالے جو کہہ نہیں پائے غم ہمارا اس لوح کا ماجرا عجب ہے اوروں کا تو ذکرکیا ، کہ خود پر احوال کھلا ہے کم ہمارا دنیا کا گلہ کریں تو کیسے خود سے بھی مکالمہ اگر ہو ہم پر ہو بہت کرم ہمارا کس عشق کی داد...
  8. فرخ منظور

    ن م راشد - انتخاب و تعارف

    انتقام اُس کا چہرہ، اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں اک شبستاں یاد ہے اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس فرش پر قالین، قالینوں کی سیج دھات اور پتھر کے بت گوشہء دیوار میں ہنستے ہوئے! اور آتشداں میں انگاروں‌کا شور اُن بتوں کی بے حِسی پر خشمگیں; اُجلی اُجلی اونچی دیواروں پہ عکس اُن فرنگی حاکموں کی یادگار جن کی...
  9. فرخ منظور

    ن م راشد - انتخاب و تعارف

    تعارف اجل، ان سے مل، کہ یہ سادہ دل نہ اہلِ صلوٰۃ اور نہ اہلِ شراب، نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب، نہ اہلِ کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ مشین نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمین فقط بے یقین اجل، ان سے مت کر حجاب اجل، ان سے مل! بڑھو تُم بھی آگے بڑھو، اجل سے ملو، بڑھو، نو تونگر گداؤ نہ کشکولِ...
  10. فرخ منظور

    ن م راشد - انتخاب و تعارف

    زمانہ خدا ہے "زمانہ خدا ہے، اسے تم برا مت کہو" مگر تم نہیں دیکھتے ۔۔۔ زمانہ فقط ریسمانِ خیال سبک مایہ، نازک، طویل جدائی کی ارزاں سبیل وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہوں گی انھیں تم نہیں دیکھتے، دیکھ سکتے نہیں کہ موجود ہیں، اب بھی موجود ہیں وہ کہیں مگر یہ نگاہوں کے...
  11. فرخ منظور

    ن م راشد - انتخاب و تعارف

    خود سے ہم دور نکل آئے ہیں میں وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی تھی سالہا دشت نوردوں سے، جہاں گردوں سے اپنا ہی عکسِ رواں تھی گویا کوئی روئے گزراں تھی گویا ایک محرومیِ دیرینہ سے شاداب تھے آلام کے اشجار وہاں برگ و بار اُن کا وہ پامال امیدیں جن سے پرسیِ افشاں کی طرح خواہشیں آویزاں تھیں، کبھی ارمانوں کے...
  12. فرخ منظور

    ن م راشد - انتخاب و تعارف

    ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں! عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا عشق اپنی ہی کمی ہے گویا! اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں جس سے بول اٹھتے ہیں...
  13. فرخ منظور

    ن م راشد - انتخاب و تعارف

    گداگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن گزرگاہوں پہ دیکھا ہے نگاہوں نے لُہو یاسیہ عورت کی آنکھوں میں یہ سہم کیا یہ اونچے شہر رہ جائیں گے بس شہروں کا وہم مَیں گداگر اور مرا دریوزہ فہم! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راہ پیمائی عصا اور عافیت کوشی گدا کا لنگِ پا آ رہی ہے ساحروں کی، شعبدہ سازوں کی صبح تیز پا، گرداب آسا، ناچتی، بڑھتی ہوئی...
  14. فرخ منظور

    ن م راشد - انتخاب و تعارف

    نارسائی درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے کہ ان کی جڑیں کھوکھلی ہو چلی ہیں، مگر ان میں ہر شاخ بزدل ہے یا مبتلا خود فریبی میں شاید کہ ان کرم خردہ جڑوں سے وہ اپنے لیے تازہ نم ڈھونڈتی ہے! میں مہمان خانے کے سالون میں ایک صوفے میں چپ چاپ دبکا ہوا تھا، گرانی کے باعث وہاں دختران عجم تو نہ تھیں...
  15. فرخ منظور

    ن م راشد - انتخاب و تعارف

    ہم جسم در پیش ہمیں چشم و لب و گوش کے پیرائے رہے ہیں کل رات جو ہم چاند میں اس سبزے پہ ان سایوں میں غزلائے رہے ہیں کس آس میں کجلائے رہے ہیں؟ اس "میں" کو جو ہم جسموں میں محبوس ہے آزاد کریں کیسے ہم آزاد کریں؟ کون کرے؟ ہم؟ ہم جسم ہم جسم کہ کل رات اسی چاند میں اس سبزے پہ ان سایوں میں خود اپنے کو...
  16. فرخ منظور

    ن م راشد - انتخاب و تعارف

    اجنبی عورت ایشیا کے دورافتادہ شبستانوں میں بھی میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں کاش اک دیوارِ ظلم میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو یہ عماراتِ قدیم یہ خیاباں، یہ چمن، یہ لالہ زار چاندنی میں نوحہ خواں اجنبی کے دستِ غارتگر سے ہیں زندگی کے ان نہاں خانوں میں بھی میرے خوابوں کا کوئی روماں...
  17. فرخ منظور

    ن م راشد - انتخاب و تعارف

    پہلی کرن کوئی مجھ کو دُور زمان و مکاں سے نکلنے کی صورت بتا دو کوئی یہ سجھا دو کہ حاصل ہے کیا ہستیِ رائیگاں سے؟ کہ غیروں کی تہذیب کی استواری کی خاطر عبث بن رہا ہہے ہمارا لہو مومیائی میں اُس قوم کا فرد ہوں جس کے حصے میں محنت ہی محنت ہے، نانِ شبینہ نہیں ہے اور اس پر بھی یہ قوم دل شاد ہے شوکتِ...
  18. فرخ منظور

    امیر خسرو ہندی میں

    جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا حقّا الہٰی کیا کیا، آنسو چلے بھر لائے کر توں تو ہمارا یار ہے ، تجھ پر ہمارا پیار ہے تجھ دوستی بسیار ہے ، اِک شب ملو تم آئے کر جاناں طلب تیری کروں ، دیگر طلب کس کی کروں...
  19. فرخ منظور

    ظہیر کاشمیری شاہدہ ۔ از ظہیر کاشمیری

    شاہدہ کسی سنولائی ہوئی شام کی تنہائی میں دو سرکتے ہوئے سایوں میں ہوئی سرگوشی بات چھوٹی تھی --- مگر پھیل کے افسانہ بنی میں نے اکثر یہی سوچا --- ترا خوش رنگ بدن نقرۂ ناب کا ترشا ہوا ٹکڑا ہو گا دودھیا ۔۔۔۔۔ سرد ۔۔۔۔ حرارت سے تہی جس پہ طاری ہو خود اپنے ہی تصور کا جمود کوئی اعجازِ پرستش...
  20. فرخ منظور

    ظہیر کاشمیری ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے ۔ ظہیر کاشمیری

    ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے ہر شے میں ان کا حسنِ نظر دیکھتے رہے گلشن کو ہم برنگِ دگر دیکھتے رہے ہر گام پر خزاں کا خطر دیکھتے رہے ہم نے تو کروٹوں میں جوانی گزار دی حسرت سے بزمِ غیر کا در دیکھتے رہے وہ جنبشِ نقاب کا منظر نہ پوچھیے کیا دیکھنا تھا اپنا جگر دیکھتے رہے وہ بار بار...
Top