اور اب آپ باقی کی منظر کشی اپنے تخیل کی قوت سے خود کریں کہ طوطا اگر صائب کی زبانی بول رہا ہو تو پھر صائب کون ہو سکتا ہے ۔اور اس میں پرندے کی فریاد اور شکاری کا عمل کیا طلسم باندھ رہا ہے ۔
علی وقار بھائی ۔حسن ظن کا شکریہ۔یوں سمجھ لیجیے کہ اس شعر میں صائب تبریزی صاحب کا طوطا صائب بھائی کی شکایت کر رہا ہے کہ کہ؛
انہوں نے میرے پر کاٹ دئیے اور میرے قفس کا دروازہ کھول دیا۔
اب اس پرندے کے لیے کیارہائی ، کیا ر قید،جب پر ہی کٹ جائیں ۔