سخنور بھائی میں شاعری تو بہت کم پڑھتی ہوں اور یہ کتاب تو میں نے بھی نہیں پڑھی لیکن یہ غزل میں نے انٹرنیٹ سے ہی اپنی ڈائری میں کاپی کی تھی ،مجھے اچھی لگی تو شیئر کر دی۔:)
سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں
دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں
وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
اک صورت تھی عجب یاد نہیں
ایسا الجھا ہوں غمِ دنیا میں
ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار...
میری جانب سے بھی سب کو سالِ نو مبارک اور دعا کہ یہ سال میرے آپکے اور تمام مسلمانوں کیلئے خیرو عافیت لیکر آئے اور ایک التجا بھی کہ اپنا محاسبہ ضرور کیجئے کیونکہ دوسروں کا محاسبہ کرتے کرتے ہم اپنی ذات کی کانٹ چھانٹ اور ذہن و دل کی صفائی کو بالکل بھول جاتے ہیں۔:)
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
محبت کے لئے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ھے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں