۔۔۔ ہیک نہیں ہوا تھا، میں خود بھول گیا تھا۔ ونڈو نئی ڈالی تو مسئلہ بن گیا۔ اب کے نوٹ بک میں لکھ کر رکھ لئے ہیں سارے پاس ورڈ۔ پرانی مشین میں رَیم رَوم کا مسئلہ بھی تو بن جاتا ہے نا! ۔۔
قوافی کے ضمن میں بات جمع بنانے کے قواعد کی بھی ہوئی۔ الف نون کے ساتھ جمع بنانے کا قاعدہ بنیادی طور پر فارسی کا ہے عربی کا نہیں ہے۔ جناب الف عین کی اجازت سے کسی قدر تفصیل میں بات کرنا چاہوں گا۔
عربی میں جمع کے دو معروف طریقے ہیں: جمع سالم اور جمع مکسر۔ صالح سے صلحاء جمع مکسر ہے؛ جمع سالم کی تین...
منقبت، سلام، نعت ان سب کے لئے ایک بہت موزوں لفظ ہے: مدح
مدح نگاری میں اول اہمیت ہے ممدوح کا مقام اور وقار؛ ایک شاعر اپنے ممدوح کو کس مقام پر دیکھتا ہے اور اپنے قارئین کو دکھانا چاہتا ہے، یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ مدح میں شعر کو بالترجیح ارفع اور اعلیٰ ہونا چاہئے؛ نہ صرف فکری اور نظری سطح پر بلکہ...
سلام، منقبت، ہدیہ، نعت؛ اس نوع کی شاعری میں سب سے اہم عنصر شاعر کے عقائد اور عقیدت کا عنصر ہے۔ قاری اور ناقد کا نکتہء نظر مختلف بھی ہو سکتا ہے، اور موافق بھی؛ سو، بات بہت سنبھل کر کرنی پڑتی ہے کہ عقیدے اور عقیدت میں جذباتی ہونا، یا جذباتی ہو جانا بالکل فطری عمل ہے۔ اس لئے یہ فقیر ایسی تحریروں پر...
لَے، سُر، وَزن، بَحر ۔۔۔ جو نام بھی آپ اس کو دے لیجئے ۔۔۔
اس کا ادراک انسان کے اندر کہیں ہوتا ہے۔ اس کو پیدا نہیں کیا جا سکتا، سنوارا نکھارا جا سکتا ہے۔ شعر کے باقی تقاضے اور لوازمات بعد کی بات ہے۔
گرم والا مصرعہ صاحبِ غزل نے نکال دیا، اچھا کیا۔ "گرم" وتد مفروق کی سند میں غالب ایک شعر:
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہ ہوا
اقبال نے بھی اس کی پیروی کی ہے:
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو کہ بزم ہو، پاک دل پاک باز
(عبارت کی توثیق کر لیجئے گا)۔
دیکھتے کیا ہو یوں مخمور نگاہوں سے ہمیں
کبھی ہم بھی تھے رضؔا رندِ بلانوش رہے
نہیں بھائی! اس شعر کو تو پھر سے کہئے۔ ایک اہم بات یہاں بھی۔ تخلص کو مسئلہ نہ بنائیے گا کبھی، نہیں بھی آتا تو کیا ہے! غزل تو آپ ہی کی ہے نا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی بیت گئی جن سے وفائیں کرتے
دوست اپنے وہی احسان فراموش رہے
چل جائے گا۔
ضبط کا جام چھلکنے کو ہے بے تاب بہت
عافیت اُس کی اِسی میں ہے کہ خاموش رہے
جام تو بے تاب نہیں ہوا کرتا، نہ بھرنے کو نہ چھلکنے کو۔ یوں کہہ لیجئے کہ ضبط کا جام چھلکنے کو ہے۔ عافیت کس کی؟ محبوب کی؟ پھر تو بھائی یہ انداز بہت...
وائے قسمت کہ ہمیں ہجر سے فرصت نہ ملی
راحتِ وصل سے اکثر ہی سُبکدوش رہے
پہلا مصرع بہت جان دار اور شان دار ہے۔ دوسرے مصرعے میں کچھ مسائل ہیں۔ اکثر کے ساتھ ہی کا استعمال؛ میں اس کو پاسنگ کہا کرتا ہوں، وزن پورا کرنے کو ایک ننھا سا باٹ ڈال دیا۔ اس سے حتی الامکان گریز کیجئے۔ سبک دوش رہنا، کہاں تک درست...
کیف لائیں کہاں سے ہم وہ سرِ بزمِ سرور
اب نہ ساقی رہا ویسا نہ وہ مے نوش رہے
"کہاں" اخفاء کے جواز کے باوجود یہاں ثقالت کا احساس ہوتا ہے۔ محمد خلیل الرحمٰن کی رائے پر توجہ دیجئے گا۔ آپ یوں بھی کر سکتے ہیں:
کیف ہم لائیں کہاں سے کہ سرِ بزمِ سرور
نہ وہ ساقی رہا ویسا نہ وہ مے نوش رہے
بہ این ہمہ کہ...
بند ہو جائیں سبھی زیست کی راہیں لیکن
آپ کا ہم پہ کُھلا حلقہِ آغوش رہے
حلقہ ہے تو پھر بانہوں کا ہو گا، آغوش کو حجلہ تو کہا جا سکتا ہے حلقہ نہیں۔ زیست کی "راہیں" کیا ہوئیں پھر؟ مراعات النظیر کو بہتر کر لیجئے تو اچھا ہے۔
روبرو یوں ہی جو بیٹھا وہ سِتم کوش رہے
کون کم بخت اُسے دیکھ کے ذی ہوش رہے
نہیں بھائی! ذی ہوش ایک مستقل قدر ہے جیسے ذی وقار، ذی فہم، ذی شان۔ آپ کا شعر یہ کہنا چاہ رہا ہے کون ہوش میں رہے؛ یہ قدر نہیں کیفیت ہے۔ حسرت موہانی نے کیا اچھا باندھا ہے:
رہا کرتے ہیں قیدِ ہوش میں اے وائے ناکامی
وہ دشتِ خود...