ایک حیرت کے ساتھ پیشِ حدمت ہے آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
(ق)
بامِ مینا سے ماہتاب اُترے
دستِ ساقی میں، آفتاب آئے
ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
نہ...