ٹھوکریں کھا کے اک زمانے تک
آ گیا تیرے آستانے تک
عمر ساری قفس میں کاٹی ہے
آج پہنچا ہوں آشیانے تک
آہ یہ اپنا دردِ نامعلوم!
جس سے بیگانہ تھے یگانے تک
تا بہ مشہد پہنچ سکے دو چار
رہ گئے لوگ بادہ خانے تک
عزم کے کتنے قافلے چل کر
رک گئے نت نئے بہانے تک
زندگی اپنا ساتھ دے کہ نہ دے
تیرگی کا حصار...