بابا جانی کی محبت اور شفقت کی نذر۔۔۔۔ ایک اور غزل
غزل
اب ہے تعبیر کے دھوکے میں سرابوں کا سفر
اب مرے پاس مرے خواب کہاں رہتے ہیں
ہاں اِسی شہر میں بہتا ہے فُراتِ وحشت
ہاں اِسی شہر میں کچھ تشنہ لباں رہتے ہیں
حبسِ زندانِ تحیر یہ گواہی دے گا
جو زمیں پر نہیں رہتے، وہ یہاں رہتے ہیں
اب کہاں کھینچتی...
نایاب انکل یہ مریم افتخار کا جواب ہے۔ انہیں ابھی اقتباسات لینے نہیں آتے، اس لئے میں نے دوبارہ پوسٹ کر دئے ہیں۔
جو جی چاہے :)
آپکا حسنِ ظن ہے :)
ثم آمین
چونکہ یہ تعارف ہے اور سارے کا سارا بیرونی اور مادی ہے ، روحانی کچھ نہیں اس لئے میں نے اندرونی تعارف کیلئے اس ایک مصرعے پر اکتفا کیا۔
بات...
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
میں آپ کے الفاظ کی دل سے قدر کرتا ہوں مگر شاید موتی بننے تک کا سفر اتنا آسان نہیں۔۔۔ ابھی تو بہت مراحل آئیں گے۔۔۔ ابھی تو اُس سمندر میں داخلے کی اجازت بھی نہیں ملی۔۔۔ چہ جائے کہ موتی :)