مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
جگمگائے ترے موتیوں کی دمک
جب میں تھک ہار کے پاس آیا ترے
ہار بانہوں کے ڈالے گلے میں مرے
اپنے ہاتھوں مرے بال بکھرا دیے
گدگدائے تری چوڑیوں کی کھنک
مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔
اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم
یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم
میری مشتاق نظروں سے شرماؤ تم...
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
جگمگائے ترے موتیوں کی دمک
جب میں تھک ہار کے پاس آیا ترے
ہار بانہوں کے ڈالے گلے میں مرے
اپنے ہاتھوں مرے بال بکھرا دیے
گدگدائے تری چوڑیوں کی کھنک
مسکراتے ہوئےسرخ ہونٹوں تلے۔۔۔۔۔
اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم
یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم
میری مشتاق نظروں سے شرماؤ تم...
اگر ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو کر سچائی کی تلا ش کی جائے تو آخر کار انسان سچائی کو پا لیتا ہے
سائنس کی بنیاد ہی یہی ہے اور ایک سچا سائنسدان ہی ایسی بات کہ سکتا ہے
استادِمحترم ایک بار پھر شکریہ نہایت ادب سے عرض ہے کہ
سر ہر شعر میں پہلا اور دوسرا مصرعہ آپس میں جڑے ہیں جیسے
نار میں جل جائیں گے سارے جو راشی مرتشی
کام پھر نہ ہو کسی کا آج کل جس کے بغیر
مہلے مصرعہ میں قیامت کا ذکر ہے اور دوسرے مصرعے میں آجکل کا ذکر ہے
یہ جانتے ہوئے کہ نار میں جلیں گے اس کے با...