زاہد فریفتہ ہیں مرے نونہال کے
عاشق بزرگ لوگ ہیں اس خورد سال کے
ہر شب شبِ برات ہے، ہر روز عید ہے
سوتا ہوں ہاتھ گردنِ مینا میں ڈال کے
مضمونِ رفتگاں ہے طبیعت کو اپنی ننگ
گاہک نہ ہوویں ہم کبھی مردے کے مال کے
شان و شکوہ نے ہمیں برباد کر دیا
مثلِ حباب اُڑ گئے خیمہ نکال کے
رنجِ خمار اٹھانے کی...
یہ ایک منظر نہیں ہے
اک داستاں کا حصہ نہیں ہے
اک واقعہ نہیں ہے
یہیں سے تاریخ
اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے
یہیں سے انسانیت
نئی رفعتوں کو پرواز کر رہی ہے
بےشک ۔۔۔کیا خوبصورت کہا ہے ۔
کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے
نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ مانگے کوئی
عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو بہار بھی آئے
اس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی
واہ واہ بہت ہی خوبصورت غزل ہے افتخار عارف کی !
درج بالا اشعار تو بہت ہی عمدہ ہیں ۔۔۔کیا کہنے ۔
جی بجا کہا شمشاد بھائی آپ نے مگر ہم نے تو یہ بات انتہائی لطیف و مزاح کے پیرائے میں بیان فرمائی جس کا پس منظر اردو محفل کا خاص ماحول ہے جو بالکل گھر جیسا ہے۔ :)
دودِ آہ و اشک کی دولت سے میں دیکھوں ہوں سیر
ابر اور آبِ رواں ہے زیرِ پا بالائے سر
واہ واہ سبحان اللہ ۔۔۔۔کیا ہی خوبصورت کلام ہے ۔
بہت شکریہ فاتح صاحب شریک محفل کرنے کے لیئے
اُمید ہےمزید کلام سے بھی نوازتے رہیں گے ۔