نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    54 خواہ مجھ سے لڑ گیا اب خواہ مجھ سے مل گیا کیا کہوں اے ہم نشیں میں تجھ سے حاصل دل کیا اپنے ہی دل کو نہ ہو واشد تو کیا حاصل نسیم گو چمن میں غنچہ پژمردہ تجھ سے کِھل گیا دل سے آنکھوں میں لہو آتا ہے شاید رات کو کش مکش میں بے قراری کی یہ پھوڑا چِھل گیا رشک کی جاگہ ہے مرگ اس کشتہء حسرت...
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    کیا مرے آنے پہ تو اے بتِ مغرور گیا کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گُھور گیا لے گیا صبح کے نزدیک مجھے خواب اے وائے آنکھ اس وقت کھلی قافلہ جب دور گیا چشمِ خوں‌بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا نالہء میر نہیں رات سے سنتے ہم لوگ کیا ترے کوچے سے اے شوخ و...
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    عالم میں کوئی دل کا خریدار نہ پایا اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا حق ڈھونڈنے کا آپ کو آتا نہیں ورنہ عالم ہے سبھی یار کہاں یار نہ پایا تصویر کے مانند لگے در ہی سے گزری مجلس میں تری ہم نے کبھو بار نہ پایا مربوط ہیں تجھ سے بھی یہی ناکس و نااہل اس باغ میں ہم نے گلِ بے خار نہ پایا...
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    51 اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہوگا ٹک گورِ غریباں کی کر سیر کہ دنیا میں ان ظلم رسیدوں پر کیا کیا نہ ہوا ہوگا ہے قاعدہء کلی یہ کُوئے محبت میں دل گم جو ہوا ہوگا پیدا نہ ہوا ہوگا اس کہنہ خرابے میں آبادی نہ کر منعم اک شہر نہیں یاں جو صحرا نہ...
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    یادِ ایام کہ یاں ترکِ شکیبائی تھا ہرگلی شہر کی یاں کوچہء رسوائی تھا اتنی گزری جو ترے ہجر میں سو اس کے سبب صبرِ مرحوم عجب مونسِ تنہائی تھا تیرے جلوے کا مگر کا مگر رُو تھا سحر گلشن میں نرگس اک دیدہء حیران تماشائی تھا یہی زلفوں کی تری بات تھی یا کاکل کی میر کو خوب کیا سیر تو سودائی تھا
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    49 گرچہ سردار مزوں کا ہے امیری کا مزا چھوڑ لذت کے تئیں لے تو فقیری کا مزا
  7. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا یا روز اُٹھ کے سر کو پھرایا تو کیا ہوا اُن نے تو مجھ کو جھوٹے بھی پوچھا نہ ایک بار میں نے اُسے ہزار جتایا تو کیا ہوا مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا میں صیدِ ناتواں بھی تجھے کیا کروں گا یاد ظالم اک اور تیر...
  8. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    47 ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا ہر گام پہ جس میں سر نہ ہوگا کیا اُن نے نشے میں مجھ کومارا اتنا بھی تو بے خبر نہ ہوگا دشنوں سے کسی کا اتنا ظالم ٹکڑے ٹکڑے جگر نہ ہوگا اب دل کے تئیں دیا تو سمجھا محنت زدوں کے جگر نہ ہوگا (ق) دنیا کی نہ کر تو خواست گاری اس سے کبھو بہرہ ور نہ ہوگا آ...
  9. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    46 اُس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا ہم راہروانِ راہِ فنا ہیں بہ رنگِ عمر جاویں گے ایسے، کھوج بھی پایا نہ جائے گا پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا اپنے شہیدِ ناز سے بس ہاتھ اُٹھا، کہ پھر دیوانِ حشر میں اُسے...
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    45 رہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا نہیں ستارے، یہ سوراخ پڑگئے ہیں تمام فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا گلی میں اُس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا لباسِ فقر ہے واں، فخر بادشاہوں کا تمام زلف کے کوچے ہیں مارِ پیچ اُس کی تجھی کو آوے دِلا! چلنا ایسی راہوں کا...
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    44 مہر کی تجھ سے توقع تھی، ستم گر نکلا موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تُو باہر نکلا جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا جو ستم دیدہ رہا جاکے سو مر کر نکلا دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ جانا جاتا ہے کہ اس...
  12. وہاب اعجاز خان

    میرے مشاغل

    جواب محترمہ کس کو کس سے ملا رہی ہیں۔ کہاں وہ گنگو تیلی اور کہاں میرا راجہ بھوج کتا بش۔ توبہ ہے میں اپنے کتے کی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ آپ سے یہ امید نہیں تھی۔
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    43 کئی دن سلوک وداع کا مرے درپئے دلِ زار تھا کبھو درد تھا، کبھو داغ تھا، کبھو زخم تھا، کبھو وار تھا دمِ صبح بزمِ خوشِ جہاں، شب غم سے کم نہ تھے مہرباں کہ چراغ تھا سو تو دُود تھا، جو پتنگ تھا سو غبار تھا دلِ خستہ جو لہو ہوگیا، تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک کبھوسوز سینہ سے داغ تھا ، کبھو درد...
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    42 گل و بلبل بہار میں دیکھا ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا جل گیا دل سفید ہیں آنکھیں یہ تو کچھ انتظار میں دیکھا آبلے کا بھی ہونا دامن گیر تیرے کوچے کے خار میں دیکھا جن بلاوں کو میر سنتے تھے اُن کو اس روزگار میں دیکھا
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    41 دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا ہر قدم پرتھی اس کی منزل لیک سر سے سودائے جستجو نہ گیا سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں لیکن اے داغ، دل سے تو نہ گیا دل میں کتنے مسودے تھے ولے ایک پیش اُس کے روبرو نہ گیا سبحہ گردن ہی میر ہم تو رہے دستِ کوتاہ تاسبُو نہ گیا
  16. وہاب اعجاز خان

    تبصرے انتخابِ کلام میر دیوانِ اول

    جواب پہلے تو دوستوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کا شکریہ۔ اعجاز صاحب آپ نے جن غلطیوں کی نشاندہی کی تھی۔ دیوان میں ان کی تصیح میں کرچکا ہوں۔ کچھ غلطیاں تو میرے پاس موجود نسخے میں اُس طرح ہیں اس لیے میں نے انھیں رہنے دیا۔ جہاں تھا فردا فردا دو زبر والی بات ہے تو مجھے اردو پیڈ میں اس کی شارٹ کٹ کی ہی...
  17. وہاب اعجاز خان

    میرا جی لبِ جوئیبار - میرا جی

    میراجی کے بغیر جدید اردو شاعری کا ذکر نامکمل ہے۔ انھوں نے جس خوبصورتی سے جنسی نفسیات اور تجربات کو اردو نظم میں شامل کیا ہے شاید ہی کوئی اور کر سکے۔ درجِ ذیل نظم ان کی مشہور نظموں میں سے ایک جسے اردو کی ایک بدنام ترین نظم بھی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اسلوب ،ابہام ،تخیل ، جنس اور نفسیات کے حوالے سے...
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    40 گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا خانہ خراب ہوجیو اس دل کی چاہ کا آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیں مرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا اک قطرہ خون ہو کے پلک سے ٹپک پڑا قصہ یہ کچھ ہوا دلِ غفراں پناہ کا تلوار مارنا تو تمہیں کھیل ہے ولے جاتا رہے نہ جان کسو بے گناہ کا ظالم...
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    39 یوں نکلے ہے فلک ایدھر سے نازکناں جو جانے تو خاک سے سبزہ میری اُگا کر اُن نے مجھ کو نہال کیا حال نہیں ہے عشق سے مجھ میں کس سے میر اب حال کہوں آپ ہی چاہ کر اُس ظالم کو یہ اپنا میں حال کیا
  20. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    38 سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا ہوا نہ گور گڑھا اُن ستم کے ماروں کا ہزار رنگ کھلےگل چمن کے ہیں شاہد کہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں نکل کےشہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا عرق فشانی سے اُس زلف کی ہراساں ہوں بھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا ہے تاروں کا...
Top