330
ہم سے تم کو ضد سی پڑی ہے ، خواہِ نخواہ رُلاتے ہو
آنکھ اُٹھا کر جب دیکھے ہیں، اوروں میں ہنستے جاتے ہو
سب ملنے کو سوال کروں ہوں، زلف و رخ دکھلاتے ہو
برسوں مجھ کو یوں ہی گزرے، صبح شام بتاتے ہو
بکھری رہی ہیں مجھ پر زلفیں، آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
کیوں کہ چھُپے مے خواریِ شب، جب ایسے رات کے...