نتائج تلاش

  1. س

    دل میں حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا

    اس طرح وصل کے لمحات میسر ہوتے درد ہوتا نہ کوئی، تیرا سہارا ہوتا یہ کاما لگانا بھول گیا تھا سر یا اس طرح وصل کے لمحات میسر آتے درد ہوتا نہ اگر تیرا سہارا ہوتا اس طرح ہو جائے سر تو ٹھیک ہو گا
  2. س

    جا، کہ اب تو ڈھلنے کو ہے آفتابِ زیست

    دیکھی جوہم نے کھول کے اپنی کتابِ زیست ہر اک ورق سے خوب عیاں تھا سرابِ زیست ٹکرا گئی نظر سے نظر تو پتا چلا تعبیر پا گیا ہے، ہمارا وہ خوابِ زیست جب چن لئے ہیں خار ہی سارے خوشی کے ساتھ پھولوں کا بار کیسے اٹھاتی کتابِ زیست ْبیتے ہیں ماہ و سال ترے انتظار میں آجا، کہ اب تو ڈھلنے کو ہے آفتابِ زیست...
  3. س

    دل میں حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا

    وقتِ رخصت جو نہ جی بھر کے نظارا ہوتا کس طرح کرب کے ماروں کا گذارا ہوتا اس طرح وصل کے لمحات میسر ہوتے درد ہوتا نہ کوئی تیرا سہارا ہوتا حدتِ ہجر کی تکلیف سے بچنے کے لئے روح میں قرب کا احساس اتارا ہوتا بستر مرگ پہ بھی خود کو اکیلا پایا دل میں حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا اس قدر کرب سے کیوں درد...
  4. س

    جا، کہ اب تو ڈھلنے کو ہے آفتابِ زیست

    شکریہ سر کوشش کرتا ہوں
  5. س

    دل میں حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا

    سر اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں سر الف عین سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل اور دیگر احباب وقتِ آخر نہ اگر تیرا نظارا ہوتا کس طرح کرب کے ماروں کا گذارا ہوتا اس طرح وصل کے لمحات میسر ہوتے ہم کو گھِر کر بھی فقط تیرا سہارا ہوتا ہجر کے درد سے بہتر تھا کہ پہلے سے کہیں روح میں قرب کا احساس اتارا...
  6. س

    جا، کہ اب تو ڈھلنے کو ہے آفتابِ زیست

    سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے دیکھی جوہم نے کھول کے اپنی کتابِ زیست ہر اک ورق سے خوب عیاں تھا سرابِ زیست ٹکرا گئی نظر سے نظر تو پتا چلا تعبیر کو ہے پہنچا ہمارا وہ خوابِ زیست جب منتخب کِیے ہیں سبھی خار باخوشی حصے میں کیسے آتے ہمارے٬ گلابِ زیست ْبیتے ہیں ماہ و سال ترے...
  7. س

    غزل براہ اصلاح

    تو اپنے درد کی کیوں خود مسیحائی نہیں کرتا کوئی فرہاد ہے جو دودھ کی نہریں بہا پائے السلام علیکم عمران بھائی پہلے مصرعہ میں تُو کا و حذف کرنا اچھا نہیں لگ ریا اور دوسرے مصرعہ سمجھ نہیں پایا کہ ماضی کے فرہاد کی بات ہے تو آپ کی ردیف کے ساتھ جچ نہیں رہا اور حال میں سوال کِیا گیا ہےجیسے" کوئی فرہاد...
  8. س

    اب مجھے زخم لگا کر وہ مسیحا نہ بنے

    سر الف عین ، سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کے لئے درخواست ہے زندگی بیت گئی وصل کی تدبیروں میں پھر بھی مایوس ہوں میں کوئی ذریعہ نہ بنے میں ترے حسن کو شعروں میں سجادوں لیکن لفظ گم ہیں ترا بے مثل سراپا نہ بنے روح بسمل ہوئی الفاظ کی ضربوں سے مری اب مجھے زخم لگا کر وہ مسیحا نہ بنے...
  9. س

    عہدِ عروج ہو یا عہدِ زوال ہو

    شکریہ سر دوبارہ کوشش کرتا ہوں
  10. س

    اس وقت ہمسفر مری تنہائیاں بھی ہیں

    سر بھیج دیتے ہماری مزید اصلاح ہو جاتی
  11. س

    اس وقت ہمسفر مری تنہائیاں بھی ہیں

    غمگین میرے ساتھ یہ پروائیاں بھی ہیں پرسوز میرے حال پہ شہنائیاں بھی ہیں بازار حسن میں بھی ہوا قتلِ آرزو یاں گھنگھرؤں کے شور میں رسوائیاں بھی ہیں منجدھار میں نہ جا تجھے روکا ہے باربار ان حسرتوں کی جھیل میں گہرائیاں بھی ہیں آنکھوں کو خاک رونقِ بازار بھائے گی مسحور کن فضاہے پہ تنہائیاں بھی ہیں...
  12. س

    اس وقت ہمسفر مری تنہائیاں بھی ہیں

    غمگین میرے ساتھ یہ پروائیاں بھی ہیں پرسوز میرے حال پہ شہنائیاں بھی ہیں بازار حسن میں بھی ہوا قتلِ آرزو یاں گھنگھرؤں کے شور میں رسوائیاں بھی ہیں ہر ایک سُر نے روح کو زخمی کِیا مگر رقصاں ہرایک تال پہ رعنائیاں بھی ہیں منجدھار میں نہ جا تجھے روکا ہے باربار ان حسرتوں کی جھیل میں گہرائیاں بھی...
  13. س

    عہدِ عروج ہو یا عہدِ زوال ہو

    عہدِ عروج ہو کہ وہ عہدِ زوال ہو ہر روز ہر گھڑی مجھےتیرا خیال ہو ڈھونڈوں جواب تیری مَیں تصویر سے سبھی پنہاں ہر ایک نقش میں تازہ سوال ہو نس نس میں ہے تھکن مری آنکھوں میں رتجگے ہر پل لگے ہے جیسے جدائی کا سال ہو کھا کھا کے زخم ،اب مری نکھری ہے عاشقی پھر بھی ہو ضبط ایسا کہ جو بے مثال ہو...
  14. س

    ہم نے اس قطرۀِ شبنم پہ بہائے آنسو

    اس کے انکار پہ آنکھوں میں بھر آئے آنسو اپنی ناکام امنگوں میں سجائے آنسو جاں بلب ہم تھے مگر ضبط نہ ٹوٹا پھر بھی اس طرح پروۀِ مژگاں میں چھپائے آنسو ڈگمگائی جو کبھی ہجر میں امید کی لو ہم نے اسوقت چراغوں میں جلائے آنسو تازگی پھول کو دے کر جو زمیں بوس ہوا ہم نے اس قطرۀِ شبنم پہ بہائے آنسو ہم...
  15. س

    ہم نے اس قطرۀِ شبنم پہ بہائے آنسو

    شکریہ سر دوبارہ کوشش کرتا ہوں
Top