نتائج تلاش

  1. سرفرازاحمدسحر

    غزل بغرض اصلاح

    ایک غزل کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔ اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔ میں نے خوشبو یوں نشانی کی ہے چند کلیوں کی نگہبانی کی ہے زخم جاڑے میں ہیں مہکے اب کے رُت دسمبر میں سہانی کی ہے وصف لایا ہے زمیں پر یہ مجھے میں نے دل میں جو بھی ٹھانی، کی ہے درد تیرا تو ہے کھلتا دن میں رات کی یاد میں نے رانی کی...
  2. سرفرازاحمدسحر

    غزل بغرض اصلاح

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ کچھ اشعار پیش خدمت ہیں احباب سے اصلاح کی درخواست ہے۔ دشمن تو مرے ہیں سرِبازار مخالف احباب ہیں لیکن پسِ دیوار مخالف لگتا ہے کہ میرا قدوقامت نکل آیا میرے بھی ہیں اب شہر میں دوچار مخالف حق اُس کو امیری کا نہیں شہر کی ہرگز جس شخص کے ہوں بے کس و لاچار مخالف اُس پار ہیں...
  3. سرفرازاحمدسحر

    پیار کے رنگ

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ ایک نظم احباب محفل کی نذر اصلاح کی گزارش ہے۔ لفظوں کی برسات بھی دیکھی یخ بستہ خاموشی دیکھی خوابوں کی گر پت جڑ دیکھی جذبوں کی دیکھی گرمی بھی میں نے سال کے سارے موسم دیکھے تیرے پیار میں جاناں روشن دن امید کا دیکھا دیکھی شب کی مایوسی بھی سوچ کی ڈھلتی شام بھی دیکھی صبح نئی...
  4. سرفرازاحمدسحر

    غزل

    الجھا ہے جو انکار سے اقرار مسلسل اک حشر بپا ہے پسِ دیوار مسلسل کانٹے ہیں یہاں پھول سے بے زار مسلسل مجھ سے ہیں خفا میرے سبھی یار مسلسل جب زخم مری پشت پہ آیا تو میں سمجھا لڑتا رہا دشمن سے میں بے کار مسلسل بنیاد جو نفرت کی کبھی اٌس نے تھی رکھی میں اٌس پہ اٌٹھاتا رہا دیوار مسلسل بازار میں اب...
  5. سرفرازاحمدسحر

    غزل بغرض اصلاح

    الجھا ہے جو انکار سے اقرار مسلسل اک حشر بپا ہے پسِ دیوار مسلسل کانٹے ہیں یہاں پھول سے بے زار مسلسل مجھ سے ہیں خفا میرے سبھی یار مسلسل جب زخم مری پشت پہ آیا تو میں سمجھا لڑتا رہا دشمن سے میں بے کار مسلسل بنیاد جو نفرت کی کبھی اٌس نے تھی ڈالی میں اٌس پہ اٌٹھاتا رہا دیوار مسلسل بازار میں اب...
  6. سرفرازاحمدسحر

    چند اشعار بغرض اصلاح

    محترم الف عین صاحب اور دیگر تمام احباب محفل کی خدمت میں میرا سلام ہاتھ جب وہ سر ۔ ساحل نہ رہا میں بھی طوفاں کے مقابل نہ رہا یہ کرشمہ لب۔ منصف سے ہوا کل جو تھا آج وہ قاتل نہ رہا اہل ۔ دانش کی رفاقت کے سبب مجھ سا کج فہم بھی جاہل نہ رہا
  7. سرفرازاحمدسحر

    مثنوی

    ایک نظم تمام احباب مخفل سے اصلاح کی درخواست ہے "باغبان کے نام" یہاں صبح کوئی نہیں شبنمی ہے گلوں میں کہیں بھی نہیں تازگی ہے نہیں کوئی ڈھالی لچکتی یہاں پر کلی بھی نہیں اب مچلتی یہاں پر شگوفوں میں کوئی لطافت نہیں ہے کہیں شوخ پھولوں کی رنگت نہیں ہے چمن میں گلوں کو ہی راحت نہیں ہے صباء میں ہی...
  8. سرفرازاحمدسحر

    تازا ترین واردات

    غزل حقیقت سے پردہ اٹھانے لگا ہوں خودی بیچ کر میں کمانے لگا ہوں حقیقت بتائوں، حقیقت یہی ہے حقیقت سبھی سے چھپانے لگا ہوں تکبر جلا دے نہ دولت ہنر کی سو شاگرد سے مات کھانے لگا ہوں تلاطم میں فن کے بہت ہاتھ مارے نہ ڈوبا ،نہ ہی میں ٹھکانے لگا ہوں وہ روٹی، وہ کپڑا، مکاں وہ کہاں ہے میں آئینہ شہ کو...
Top