نتائج تلاش

  1. محمل ابراہیم

    برائے اصلاح و رہنمائی

    کہیں خاموش گہرے جنگلوں میں کوئی آواز ہے جو گونجتی ہے پہاڑوں سے کبھی ٹکرائے جاتی فضاؤں کا گریباں چیرتی ہے عجب تاریک صحراؤں کے دامن میں شجر مایوس صف بستہ کھڑے ہیں خوشی کی رہگزر ماتم زدہ ہے۔۔۔۔۔۔ سبھی خاموش لب بستہ کھڑے ہیں تبھی سنسان وادی میں کوئی پھرتا ہوا آیا وہ یعنی کوئی جُگنو دور سے اُڑتا ہوا...
  2. محمل ابراہیم

    برائے اصلاح

    کر سکی میں ادا نہ قرض ترا زندگی تیری قرضدار ہوں میں تجھ پہ تہمت ہے ظلم و تعدی کی سچ تو یہ ہے ستم شعار ہوں میں آرزو ہے کہ رازدار ملیں خود کو دیکھوں کہ رازدار ہوں میں کر سکی نہ نثار جاں اپنی اور کہتی ہوں جاں نثار ہوں میں بے کلی ہی ظہورِ انساں ہے ہے دلیل اسکی بے قرار ہوں میں ہے...
  3. محمل ابراہیم

    میری زندگی کی کتاب

    میری زندگی کی کتاب میں، ترا نام بس چند ورق پہ تھا جو میں ڈھونڈھتی تھی سطور میں، وہ پیام سر ورق پہ تھا یہ گمان سے کیا گمان ہے،مرے ارد گرد اک جہاں ہے جو کھلی نظر تو عیاں ہوا،نہ بیان ایسا ورق پہ تھا میں ہوں سوز اور میں ہی ساز ہوں،میں ہر اِک کسی سے دراز ہوں جو کتابِ زیست کو وا کیا،یہ فریب ہر اِک ورق...
  4. محمل ابراہیم

    تُم شاعری ہو میری

    اس نے پوچھا تمہیں تتلیاں پسند ہیں نہ؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اُدھر خاموشی رہی۔۔۔۔ اک لمبا سکوت رہا مگر میں کشمکش میں مبتلاء رہی کیا میں اسے بتاؤں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ مجھے تیتلیوں سے زیادہ تتلیاں بھیجنے والا ہاتھ پسند ہے۔۔ اور وہ چہرہ، وہ آنکھیں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تتلیاں مجھے پسند ہیں، مگر اس میں اتنے...
  5. محمل ابراہیم

    بے سبب نہیں کُچھ بھی

    اداسیاں ہیں چار سو چراغ کیوں جلے نہیں ہے شاخ برگ مضمحل پھول کیوں کھلے نہیں چہار سو شمع کے کیوں ہے رقص اضطراب سا ہجوم ہوشمند ہے سو دل سے دل ملے نہیں پروں کو اپنے تول لو اڑان بھرنا ہے ابھی سفر دراز ہے بہت پہ فیصلہ ٹلے نہیں حسین منزلوں کے کھلتے پٹ پکارتے رہیں صداءیں شہر...
  6. محمل ابراہیم

    اضطراب

    حال نارساں بہت ساری کہانی ہے،تمہیں ہے کون سی سُننی؟ فسانہ کوئی پریوں کا ؟یا کوئی آنکھ کا پانی؟ یا قصہ بادشاہوں کا؟کہ جن کہ ظلم کے آگے۔۔۔۔۔ بہت سے بے زبان معصوم کرداروں نے جانیں دیں قحط جب بھی پڑا لہو اُنکا بنا پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ جن کے پاؤں کے نیچے تھی پگ مزدور و بیکس کی یا پھر قِصّہ...
  7. محمل ابراہیم

    ایک غزل برائے اصلاح

    میری قلم سے۔۔۔۔۔ ایک مرکز پہ جو جامد ہو نظر بن جائیں برسیں اس طرح کی ہم بار گہر بن جائیں کو بہ کو درد ہے ماتم ہے فغاں ہے ہر سو جو کرے دور الم ہم وہ اثر بن جائیں منتشر نجم ہیں افلاک میں بے راہ بے نقش اُن کو ترتیب دیں ایسے کہ مہر بن جائیں چلو تعبیر کو دیں صورتِ تعمیر ایسی ہم جو کنکر بھی اٹھائیں...
Top