برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
کر سکی میں ادا نہ قرض ترا
زندگی تیری قرضدار ہوں میں

تجھ پہ تہمت ہے ظلم و تعدی کی
سچ تو یہ ہے ستم شعار ہوں میں

آرزو ہے کہ رازدار ملیں
خود کو دیکھوں کہ رازدار ہوں میں

کر سکی نہ نثار جاں اپنی
اور کہتی ہوں جاں نثار ہوں میں

بے کلی ہی ظہورِ انساں ہے
ہے دلیل اسکی بے قرار ہوں میں

ہے سحر مجھ میں خوفِ تاریکی
صرف سورج کی پاسداری ہوں میں
 
مطلع کیوں نہیں کہا بھئی؟

تجھ پہ تہمت ہے ظلم و تعدی کی
سچ تو یہ ہے ستم شعار ہوں میں
تعدّی کا تلفظ ٹھیک نہیں، اس میں د مشدد ہوتی ہے۔ یعنی تَ+عَد+دی ۔۔۔ اس لئے پہلا مصرعہ بحر میں نہیں
تہمتیں تجھ پہ سب ہی ناحق تھیں
سچ تو یہ ہے ستم شعار ہوں میں

آرزو ہے کہ رازدار ملیں
خود کو دیکھوں کہ رازدار ہوں میں
مطلب؟

کر سکی نہ نثار جاں اپنی
اور کہتی ہوں جاں نثار ہوں میں
پہلے مصرعے میں نہ دوحرفی باندھا گیا ہے۔ ’’نہ‘‘ کو دو حرفی باندھنا اچھا نہیں، جبکہ کوئی خاص ضرورت بھی نہ ہو۔
جان اپنی نثار کر نہ سکی
اور کہتی ۔۔۔ الخ

بے کلی ہی ظہورِ انساں ہے
ہے دلیل اسکی بے قرار ہوں میں
ظہورِ انساں سے کیا مراد ہے؟
پھر ایک شاعر کا بے قرار ہونا، پوری نوع انسانی کے بے کل ہونے کی دلیل کیونکر ہوسکتی ہے؟

ہے سحر مجھ میں خوفِ تاریکی
صرف سورج کی پاسداری ہوں میں
سحر اگر بطور تخلص استعمال ہوا ہے تو اس پر ؔ کا نشان لگا دیا کریں۔
دوسری بات یہ کہ ’’مجھ میں‘‘ نہیں، ’’مجھ کو‘‘ خوفِ تاریکی کہنا چاہیئے۔
تیسرے یہ کہ مصرعۂ ثانی بحر سے خارج ہے۔ پاسداری تو یہاں وزن میں آ ہی نہیں سکتا۔ غالباً ی کتابت کی غلطی سے رہ گیا ہے، ورنہ تو قافیہ بھی چھوٹ رہا ہے۔
پاسدار آپ نے حمایتی کے معنی میں استعمال کیا ہے، جس سے شعر کے گنجلک ہونے کا خدشہ ہے، کیونکہ زیادہ تر قارئین کی رسائی مشہور معنی تک ہوگی، جو حفاظت کرنے والے کے ہیں۔
فی الحال اس کو ایسے ہی رہنے دیں، استاد محترم اگر منظور نہ کریں تو پھر متبادل سوچیے گا۔

دعاگو،
راحلؔ
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
تخلص پر جو علامت لگتی ہے اُسے کیا کہتے ہیں۔۔۔۔میرے keypad میں وہ علامت نہیں ہے۔اُردو ٹائپنگ کے لیے سر آپ کون سا کیپیڈ استعمال کرتے ہیں۔

آپکی مشکور
سحر
 

الف عین

لائبریرین
سورج کی پاسدار ترکیب قبول کی جا سکتی ہے میرے خیال میں
باقی راحل کے مشورے صائب ہیں، البتہ ان کی ایک اصلاح
تہمتیں تجھ پہ سب ہی ناحق تھیں
شاید 'ساری ناحق' بہتر ہو گا
 
فیس بک پر کسی شاعر کا ایک مصرع پڑھا تو میں نے کچھ ٹیڑھے میڑھے الفاظ کو کچھ یوں لکھا۔۔۔
کرنے چلے تھے دھوپ چھائوں کی مصوری
ٹیڑھے سے چند قطرے بارش کے بناتے چلے گئے
آنکھ نہ جھپکی رُخِ مہتاب کو تکتے تکتے
مٹاتے مٹاتے بس تصویر بناتے چلے گئے
حواس ِ خمسہ کا امتزاج تھا عروج پر
ہر اندام بناتے مٹاتے بناتے چلے گئے
رات بیتی طلوع ہوا آفتاب اے جاناں!
نئے سرے سے چہرہ مہتاب بناتے چلے گئے
 
فیس بک پر کسی شاعر کا ایک مصرع پڑھا تو میں نے کچھ ٹیڑھے میڑھے الفاظ کو کچھ یوں لکھا۔۔۔
کرنے چلے تھے دھوپ چھائوں کی مصوری
ٹیڑھے سے چند قطرے بارش کے بناتے چلے گئے
آنکھ نہ جھپکی رُخِ مہتاب کو تکتے تکتے
مٹاتے مٹاتے بس تصویر بناتے چلے گئے
حواس ِ خمسہ کا امتزاج تھا عروج پر
ہر اندام بناتے مٹاتے بناتے چلے گئے
رات بیتی طلوع ہوا آفتاب اے جاناں!
نئے سرے سے چہرہ مہتاب بناتے چلے گئے

محترم پروفیسر صاحب، آداب

اردو محفل میں خوش آمدید.
اگر آپ کو اپنے اشعار کی اصلاح درکار ہیں تو اس کو ایک نئی، علیحدہ لڑی بنا کر اس میں پیش کیجئے. نئی لڑی بنانے کے لئے فورم کے مرکزی پیج
اِصلاحِ سخن
کے ٹاپ لیفٹ کارنر پر دیا گیا "نئی لڑی بنائیں" والا بٹن دبائیں.
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اُستاد محترم محمد احسن سمیع راحل

تنگ و تاریک سا حصار ہوں میں
روحِ ارضی ترا مزار ہوں میں

کر سکی میں ادا نہ قرض ترا
زندگی تیری قرضدار ہوں میں

تہمتیں تُجھ پہ ساری ناحق تھیں
سچ تو یہ ہے ستم شعار ہوں میں

بے کلی بے خودی کا عالم ہے
سب ہیں مدہوش وہ خمار ہوں میں

زِندگی بے کلی سے ہے تعبیر
دلِ زندہ ہوں بے قرار ہوں میں

ہے سحر مجھ کو خوفِ تاریکی
صرف سورج کی پاسدار ہوں میں
 
Top