میری زندگی کی کتاب

محمل ابراہیم

لائبریرین
میری زندگی کی کتاب میں، ترا نام بس چند ورق پہ تھا
جو میں ڈھونڈھتی تھی سطور میں، وہ پیام سر ورق پہ تھا
یہ گمان سے کیا گمان ہے،مرے ارد گرد اک جہاں ہے
جو کھلی نظر تو عیاں ہوا،نہ بیان ایسا ورق پہ تھا
میں ہوں سوز اور میں ہی ساز ہوں،میں ہر اِک کسی سے دراز ہوں
جو کتابِ زیست کو وا کیا،یہ فریب ہر اِک ورق پہ تھا
یہی رات ہوگی یہ دوپہر بھی،یہی شام ہوگی یہی سحر بھی
مرہے بعد بدلے نظام کیونکر،یہ لکھا ہوا ہر ورق پہ تھا

سحر
 
Top