نتائج تلاش

  1. صفی حیدر

    غزل برائے اصلاح

    تیرا سامان مجھ میں بکھرا ہے دل یہ بے جان مجھ میں بکھرا ہے سوچتا ہوں سمیٹ لوں میں اسے میرا ارمان مجھ میں بکھرا ہے کس کی آمد کا پیش خیمہ ہے یہ ایک طوفان مجھ میں بکھرا ہے سب امیدیں مری ختم ہو چکیں اور یہ نقصان مجھ میں بکھرا ہے ایک ٹوٹا قلم ہے پاس مرے میرا دیوان مجھ میں بکھرا ہے ہے مکمل...
  2. صفی حیدر

    غزل

    شب کی بے خوابی مجھ میں باقی ہے دن کی بے تابی مجھ میں باقی ہے بجھ گئے ہیں چراغ تاروں کے شمع یہ کیسی مجھ میں باقی ہے گو میں سورج کے سنگ چلتا ہوں رات اک گہری مجھ میں باقی ہے سب ہی گم ہو گئی ہیں آوازیں اک صدا روتی مجھ میں باقی ہے سانس گنتے ہو یہ سوچ کر میری زندگی کتنی مجھ میں باقی ہے میرے...
  3. صفی حیدر

    غزل برائے اصلاح

    میں دل کی خلش کو مٹا دوں میں تجھ کو بھی کیا اب بھلا دوں خطوطِ وفا جو لکھے تھے اے جاں کیا وہ سارے جلا دوں جو مجھ پر گزرتی رہی ہے اجازت ہو تو سب بتا دوں چھپے درد ہیں خامشی میں سنا کر تجھے بھی رلا دوں میرے غم میں حدت ہے ایسی کہ اس آگ سے سب جلا دوں پریشان کر دوں تجھے بھی کہو تو وہ منظر دکھا دوں...
  4. صفی حیدر

    غزل

    میں کثرتِ خیال سے الجھا ہوں میں سوچ کے وبال سے الجھا ہوں منظر میں دیکھوں یا پسِ منظر میں اس حسن کے سوال سے الجھا ہوں میں ذات سے وجود میں آیا ہوں اور اس کے میں جمال سے الجھا ہوں تیرے سوا بھی سوچنا چاہے ہے میں دل کی اس مجال سے الجھا ہوں ناخوش ہوں میں اپنی ہی شہرت سے میں بے وجہ کمال سے...
  5. صفی حیدر

    غزل

    میں کثرتِ خیال سے الجھا ہوں میں سوچ کے وبال سے الجھا ہوں منظر میں دیکھوں یا پسِ منظر میں اس حسن کے سوال سے الجھا ہوں میں ذات سے وجود میں آیا ہوں اور اس کے میں جمال سے الجھا ہوں تیرے سوا بھی سوچنا چاہے ہے میں دل کی اس مجال سے الجھا ہوں ناخوش ہوں میں اپنی ہی شہرت سے میں بے وجہ کمال سے...
  6. صفی حیدر

    غزل برائے اصلاح

    میرا دل اضطراب رکھتا ہے جیسے صحرا سراب رکھتا ہے رتجگے آنکھوں میں سمائے ہیں اور دل تیرے خواب رکھتا ہے کتنے دکھ جھیلے ہیں خوشی کے لیے کون اس کا حساب رکھتا ہے میری سب حسرتیں لکھے گا کیا جو عمل کی کتاب رکھتا ہے جو بیاں میں نہیں سما سکتے عشق ایسے عذاب رکھتا ہے پانی کی بوند کو ترستا ہے کہنے...
  7. صفی حیدر

    غزل

    اب بھی خواہش وصال رکھتے ہیں خواب کا ہم خیال رکھتے ہیں عمر بھر کی یہ ہی کمائی ہے ہم سخن میں کمال رکھتے ہیں چاند سورج سے ہوتا ہے روشن ہم بھی تیرا جمال رکھتے ہیں چلتے ہو تم جنوب کی جانب ہم سفر میں شمال رکھتے ہیں وہ نہیں جانتے جو نازاں ہیں حسن میں سب زوال رکھتے ہیں تم پرندے ہو آرزو کے اور...
Top