غزل برائے اصلاح

صفی حیدر

محفلین
میرا دل اضطراب رکھتا ہے
جیسے صحرا سراب رکھتا ہے
رتجگے آنکھوں میں سمائے ہیں
اور دل تیرے خواب رکھتا ہے
کتنے دکھ جھیلے ہیں خوشی کے لیے
کون اس کا حساب رکھتا ہے
میری سب حسرتیں لکھے گا کیا
جو عمل کی کتاب رکھتا ہے
جو بیاں میں نہیں سما سکتے
عشق ایسے عذاب رکھتا ہے
پانی کی بوند کو ترستا ہے
کہنے کو وہ سحاب رکھتا ہے
جو پسِ لفظ ہیں صفی ایسے
وہ کہانی میں باب رکھتا ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ داد قبول کیجیے۔ کچھ صلاح مشورے بھی

میرا دل اضطراب رکھتا ہے
جیسے صحرا سراب رکھتا ہے
اضطراب رکھناوغیرہ خلافِ محاورہ نہیں؟
دوسرے مصرعے کا جیسے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پہلے مصرع میں ایسے ہو۔

رتجگے آنکھوں میں سمائے ہیں
اور دل تیرے خواب رکھتا ہے
آنکھوں میں وں کا اسقاط کچھ ثقیل محسوس ہورہا ہے مصرع ِ اول کے لیے ایک تجویز
رتجگے بس گئے ہیں آنکھوں میں


کتنے دکھ جھیلے ہیں خوشی کے لیے
کون اس کا حساب رکھتا ہے
جیسے دن کے ساتھ رات اچھا لگتا ہے نہ کہ شب اسی طرح دکھ کے ساتھ سکھ اور خوشی کے ساتھ غم
تو یہاں دکھ کو غم سے بدل دیجیے
گویا
کتنے غم جھیلے اک خوشی کے لیے
کون اس کا حساب رکھتا ہے

میری سب حسرتیں لکھے گا کیا
جو عمل کی کتاب رکھتا ہے
سب بھرتی کا ہے، دوسرے مصرع کا "جو" پہلے مصرع میں لفظ "وہ" چاہتا ہے،ایک تجویز
وہ مری حسرتیں لکھے گا کیا

جو بیاں میں نہیں سما سکتے
عشق ایسے عذاب رکھتا ہے
ٹھیک ہے

پانی کی بوند کو ترستا ہے
کہنے کو وہ سحاب رکھتا ہے
کون ترستا ہے بات واضح نہیں

جو پسِ لفظ ہیں صفی ایسے
وہ کہانی میں باب رکھتا ہے
ٹھیک ہے

نوٹ اتفاق یا عدم اتفاق آپ کا حق ہے
 
آخری تدوین:

صفی حیدر

محفلین
اچھی غزل ہے۔ داد قبول کیجیے۔ کچھ صلاح مشورے بھی

میرا دل اضطراب رکھتا ہے
جیسے صحرا سراب رکھتا ہے
اضطراب رکھنا خلافِ محاورہ نہیں؟
دوسرے مصرعے کا جیسے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پہلے مصرع میں ایسے ہو۔

رتجگے آنکھوں میں سمائے ہیں
اور دل تیرے خواب رکھتا ہے
مصرع ِ اول کے لیے ایک تجویز
رتجگے بس گئے ہیں آنکھوں میں


کتنے دکھ جھیلے ہیں خوشی کے لیے
کون اس کا حساب رکھتا ہے
جیسے دن کے ساتھ رات اچھا لگتا ہے نہ کہ شب اسی طرح دکھ کے ساتھ سکھ اور خوشی کے ساتھ غم

میری سب حسرتیں لکھے گا کیا
جو عمل کی کتاب رکھتا ہے
سب بھرتی کا ہے، دوسرے مصرع کا جو پہلے میں وہ چاہتا ہے،ایک تجویز
وہ مری حسرتیں لکھے گا کیا

جو بیاں میں نہیں سما سکتے
عشق ایسے عذاب رکھتا ہے
ٹھیک ہے

پانی کی بوند کو ترستا ہے
کہنے کو وہ سحاب رکھتا ہے
کون ترستا ہے بات واضح نہیں

جو پسِ لفظ ہیں صفی ایسے
وہ کہانی میں باب رکھتا ہے
ٹھیک ہے

نوٹ اتفاق یا عدم اتفاق آپ کا حق ہے
بہت نوازش ہے ۔آپ نے اپنی قیمتی رائے سے نوازا۔آپ کی دی ہوئی تمام تجاویز بر محل ہیں جو غزل کی روانی اور حسن و لطافت کو بڑھا رہی ہیں ۔پہلے شعر میں خلافِ محاورہ ہونے کی جو نشاندہی آپ نے کی درست ہے ۔دوسرے شعر میں آپ کا تجویز کردہ مصرعہ ۔" رتجگے بس گئے ہیں آنکھوں میں " زیادہ عمدہ ہے ۔دکھ کے لفظ کے ساتھ سکھ کا لفظ لانے کی کوشش کروں گا۔ "وہ مری حسرتیں لکھے گا کیا " زیادہ عمدہ مصرع ہے ۔
پانی کی بوند کو ترستا ہے
کہنے کو جو سحاب رکھتا ہے
اگر "وہ " کے بجائے " جو" لکھ دیا جائے تو ابہام ختم ہو جاتا ہے کہ کون ترستا ہے ؟؟
آپ نے جو میری راہنمائی کی اس سے دلی خوشی ہوئی ہے ۔ آپ کی دی ہوئی تجاویز کے مطابق غزل میں تبدیلیاں کر دوں گا ۔ امید ہے اور آپ سے درخواست ہے کہ آئندہ بھی آپ اپنی تجاویز سے نوازتے رہیں گے۔جو میرے لیے مشعلِ راہ کی طرح ہیں ۔آپ کی قیمتی رائے کا منتظر رہوں گا ۔
رتجگے آنکھوں میں سمائے ہیں
رتجگے آنکھوں میں سمائے ہیں
 

صفی حیدر

محفلین
بہت نوازش ہے ۔آپ نے اپنی قیمتی رائے سے نوازا۔آپ کی دی ہوئی تمام تجاویز بر محل ہیں جو غزل کی روانی اور حسن و لطافت کو بڑھا رہی ہیں ۔پہلے شعر میں خلافِ محاورہ ہونے کی جو نشاندہی آپ نے کی درست ہے ۔دوسرے شعر میں آپ کا تجویز کردہ مصرعہ ۔" رتجگے بس گئے ہیں آنکھوں میں " زیادہ عمدہ ہے ۔دکھ کے لفظ کے ساتھ سکھ کا لفظ لانے کی کوشش کروں گا۔ "وہ مری حسرتیں لکھے گا کیا " زیادہ عمدہ مصرع ہے ۔
پانی کی بوند کو ترستا ہے
کہنے کو جو سحاب رکھتا ہے
اگر "وہ " کے بجائے " جو" لکھ دیا جائے تو ابہام ختم ہو جاتا ہے کہ کون ترستا ہے ؟؟
آپ نے جو میری راہنمائی کی اس سے دلی خوشی ہوئی ہے ۔ آپ کی دی ہوئی تجاویز کے مطابق غزل میں تبدیلیاں کر دوں گا ۔ امید ہے اور آپ سے درخواست ہے کہ آئندہ بھی آپ اپنی تجاویز سے نوازتے رہیں گے۔جو میرے لیے مشعلِ راہ کی طرح ہیں ۔آپ کی قیمتی رائے کا منتظر رہوں گا ۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے اپنا تعارف تو کرائیں۔
دونوں مصرعوں میں تعلق کی کمی ہے، جسے دو لختی کیفیت کہتے ہیں۔ بحر و اوزان کا کوئی مسئلہ نہیں۔ جیسے
پانی کی بوند کو ترستا ہے
کہنے کو وہ سحاب رکھتا ہے
پانی کی بوند میں چستی نہیں ہے۔ خاص کر ’سحاب‘ لفظ کے استعمال کی وجہ سے یوں بہتر ہو گا
قطرہء آب کو ترستا ہے
 

صفی حیدر

محفلین
پہلے اپنا تعارف تو کرائیں۔
دونوں مصرعوں میں تعلق کی کمی ہے، جسے دو لختی کیفیت کہتے ہیں۔ بحر و اوزان کا کوئی مسئلہ نہیں۔ جیسے
پانی کی بوند کو ترستا ہے
کہنے کو وہ سحاب رکھتا ہے
پانی کی بوند میں چستی نہیں ہے۔ خاص کر ’سحاب‘ لفظ کے استعمال کی وجہ سے یوں بہتر ہو گا
قطرہء آب کو ترستا ہے
بہت شکریہ آپ نے اپنی قیمتی رائے سے نوازا ۔آپ کی رائے اور اصلاح سے یہ دو لختی کی کیفیت کافی حد تک کم ہو سکتی جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار رہوں گا ۔تعارف بس اتنا ہے کہ نام سے آپ واقف ہیں ۔سلسلہ روزگار یہ ہے کہ ایک گورنمنٹ ہائی اسکول میں بطور اول مدرس کام کرتا ہوں ۔شاعری میرا شوق ہی نہیں جنون ہے ۔آپ بیتی اور جگ بیتی کو تخیل اور مشاہدے کے قلم سے مصرعوں کی صورت لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔کبھی کوئی استادِ سخن میسر نہیں آیا جو راہنمائی کرے ۔اسی تلاش میں آپ کی محفل میں حاضر ہونے کی جسارت کی ہے۔اپنی تخلیقات پر آپ کی رائے کا منتظر ہوں ۔
 
Top