محمد آصف میؤ

کوائف نامے کے مراسلے حالیہ سرگرمی مراسلے تعارف

  • ہر جگہ ہر گھڑی ہر پہر میں ہیں ہم
    اک حسیں شاعرہ کے سحر میں ہیں ہم

    عشق نے چند دن کی خوشی دی ہمیں
    اب شب و روز غم کی لہر میں ہیں ہم

    محمد آصف میؤ
    تم مری زیست کا سامان نہیں ہو سکتی
    دوست ہو سکتی ہو پر جان نہیں ہو سکتی

    جس نے دیکھا ہے تمہیں ہنستے مسکراتے ہوئے
    اُس کی آنکھیں کبھی ویران نہیں ہو سکتی

    محمد آصف میؤ
    جب مرے سامنے وہ آتی ہے
    اُڑنے لگتا ہوں میں ہواؤں میں

    محمد آصف میؤ
    سید عمران
    سید عمران
    شاید اماں کی ہوائی چپل کی بات ہورہی ہے!!!
    یاسر شاہ
    یاسر شاہ
    یہ شعر آپ کا وزن میں برابر ہے۔خودکشی سے پہلے غزل کی اصلاح کروا لیں۔
    خود کشی کرنے والے شاعروں کو پڑھتا ہوں
    کل کو مجھ کو بھی پڑھے گا کوئی میرے جیسا

    محمد آصف میؤ
    محمداحمد
    محمداحمد
    بھیا جی! خود سوزی یا خود کشی بہادری نہیں بلکہ بے اختیاری ہے۔

    یوں سمجھیے کہ خود کشی کرنے والا شیطان کے ہاتھ کا کھلونا بن جاتا ہے۔ شیطان انسان کو مایوسی میں مبتلا کر دیتا ہے اور خدا پر سے اُس کا بھروسہ ختم کردیتا ہے۔یہاں تک کہ اُسے اِس حد تک لے آتا ہے کہ اسے زندگی جو اللہ کی نعمت ہے، آزار معلوم ہونے لگتی ہے اور اُسے لگتا ہے کہ موت ہی اُس کے مسائل کا حل ہے۔
    محمداحمد
    محمداحمد
    ۔ لیکن یہ سب اُس کی خام خیالی ہوتی ہے۔ جیسے ہی انسان خود کشی کے فیصلے پر عمل پیرا ہو جاتا ہے۔ شیطان کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا کام ہی لوگوں کو خدا سے دور کرنا ہے۔ خود کشی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان اس عارضی زندگی میں تو تکلیف میں رہتا ہی ہے، آگے آ نے والی دائمی زندگی میں بھی خسارے کا سودا کر لیتا۔ یہی شیطان بھی چاہتا ہے کہ آپ آخرت میں خسارہ اُؔٹھانے والوں میں سے ہو جائیں۔
    محمداحمد
    محمداحمد
    حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو"۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ برے سے برے حالات میں بھی اُمید کو اپنا دوست بنائیں اور مایوسی کو قریب بھی پھٹکنے نہ دیں۔

    اُمید ہے کہ یہ گزارشات آپ کو ناگوار نہیں گزریں گی۔
    تو گیا ہے جب سے دلبر میرا لگ نہیں رہا دل
    یہ دنوں میں بھی دکھی ہے اور شب میں بھی بیاکل

    وہ یہ بولی بن سنور کے کہ میں کیسی لگ رہی ہوں
    میں یہ بولا جان میری نہیں تیرا کچھ تقابُل

    اک غم سے جاں نہ چھُوٹی ، تیّار دوسرا ہے
    میری زندگی میں آصفؔ ہے غموں کا اک تسلسل

    محمد آصفؔ میؤ
    تجھے سننا چاہوں ہر دم تجھے دیکھوں میں مسلسل
    میرا خوں نچوڑتا ہے تیرے ربط میں تعطُّل

    کبھی بن کہے ہی سننا میرا حالِ دل سمجھنا
    کبھی سن کے بھی نہ سننا ارے واہ تیرا تجاہل

    مجھے دیکھ کر بھی جو تم یوں بنو کہ نہیں دیکھا
    تمہیں زیب ہے کیا جاناں بھلا اس قدر تغافل

    محمد آصفؔ میؤ
    جو ایک بار بیٹھ گیا مسندِ دل پر
    تاحشر اسے دل سے اتارا نہ جائے گا

    رد ہو گئی جو اب کے بھی درخواست ہماری
    ہم سے دوبارہ رب کو پکارا نہ جائے گا

    جو مانگنا ہے دل سے مانگ اپنے خدا سے
    یہ مانگنا تمہارا نکارہ نہ جائے گا

    آپ ائیے ہمارا مقدر سنوارئیے
    ہم سے تو کسی طور سنوارا نہ جائے گا

    آصفؔ جسے یہ عاشقی کا روگ لگ گیا
    ماہر طبیب سے بھی بچایا نہ جائے گا

    محمد آصفؔ میؤ
    یہ بارِ غمِ عشق اٹھایا نہ جائے گا
    تم رُوٹھے اگر ہم سے منایا نہ جائے گا

    تم خود ہی آکے دیکھ لو حالِ مریضِ عشق
    قاصد سے میرا حال سنایا نہ جائے گا

    سب ایک بار سن لیں میرا شعر غور سے
    دوبارہ کسی کو بھی سنایا نہ جائے گا

    چہرے سے عیاں ہوتا ہے جاناں تمہارا غم
    ہم سے تمہارا ہجر چھپایا نہ جائے گا
    محمد آصفؔ میؤ
    جن راستوں پہ اُس کے قدم تھے پڑے کبھی
    جُوتے اُتار کر میں گزرتا ہوں وہاں سے

    جب کی ہے ہے محبت تو کیوں دنیا سے چھپاؤں
    ہاں مجھ کو محبت ہے فلاں بنتِ فلاں سے

    سب کہتے ہیں اس کو بھی بہت پیار ہے مجھ سے
    لیکن میں سننا چاہتا ہوں خود اس کی زباں سے

    محمد آصفؔ میؤ
    ‏اور بہت تکلیف دہ ہوتا ہے وہ لمحہ جب آپ رب تعالیٰ سے اُس شخص کو بھُولنے کی دعائیں مانگتے ہیں جس کے ساتھ آپ نے زندگی گُزارنے کے خواب دیکھے ہوتے ہیں ۔
    ✍ : محمد آصف میؤ
    ‏تجھ کو بھُولے سے بھی میں بھُول سکوں نا ممکن
    یہ تعلق تو رہے گا میرے مر جانے تک

    موت برحق ہے مگر آخری خواہش یہ ہے
    سانس چلتی رہے میری ، تیرے آ جانے تک

    14 نومبر یومِ پیدائش پیر نصیر الدین نصیر رحمتہ اللّٰہ علیہ
    جو ہمیں جان سے بھی پیارے ہیں
    ان کی تصویر پہ گزارے ہیں

    تری سہیلیاں کہ یوں سمجھو
    چاند کے ارد گرد تارے ہیں

    یہ جو شادی کے تجھ سے وعدے ہیں
    لارے ہیں اور صرف لارے ہیں

    آسماں پر جو بادل چھائے ہیں
    سب ملاقات کے اشارے ہیں

    بن پیئے ہی جو ہوش کھو بیٹھے
    سب تمہاری نظر کے مارے ہیں

    یار آصفٓ منا لو روٹھوں کو
    چار دن زندگی کے سارے ہیں

    محمد آصفؔ میؤ
    یہ قصّہ میں تجھ کو سنا چاہتا ہوں
    آ تجھ کو بتاؤں میں کیا چاہتا ہوں

    وہی بے خیالی وہی بے قراری
    وہی عشق کی ابتدا چاہتا ہوں

    نہ جینے کی اب مجھ کو حسرت رہی ہے
    بہت جی چکا ہوں فنا چاہتا ہوں

    تجھے پردے میں بارہا میں نے دیکھا
    بے پردہ تجھے دیکھنا چاہتا ہوں

    ٓبہت توڑے دل میں نے اپنوں کے آصف
    میں روٹھے ہوؤں کو منا چاہتا ہوں
    محمد آصفؔ میؤ
  • لوڈ ہو رہا ہے…
  • لوڈ ہو رہا ہے…
  • لوڈ ہو رہا ہے…
Top