فوزیہ افضل
محفلین
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہےجب خیال آیا مجھے تیرے رخ پر نور کا
پھر گیا نقشہ میری آنکھوں میں شمع طور کا
طور
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ساغر صدیقی
چراغ
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہےجب خیال آیا مجھے تیرے رخ پر نور کا
پھر گیا نقشہ میری آنکھوں میں شمع طور کا
طور
آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیںچراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ساغر صدیقی
چراغ
بازار
آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں
روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں
جگر مرادآبا
انہیں کے فیض سے بازار عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
فیض احمد فیض
تیرے در کے فقیر ہیں ہم لوگصبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ
گٹھریاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی
احمد ندیم قاسمی
لوگ
کمان چھوڑ گئے بے نظیر جتنے تھےتیرے در کے فقیر ہیں ہم لوگ
کیا امیر و کبیر ہیں ہم لوگ
دونوں عالم کی قید سے آزاد
ایک تیرے اسیر ہیں ہم لوگ
حسن و خوبی میں بے مثال ہیں آپ
عشق میں بے نظیر ہیں ہم لوگ
ذہین شاہ تاجی
بے نظیر
پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھاتیر پہ تیر نشانوں پہ نشانے بدلے
شکر ہے حسن کے انداز پرانے بدلے
انداز
صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہپہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا
روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا
عادت
قول و قرار تیری خاطر سے مانتا ہوںصادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
قول
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاںقول و قرار تیری خاطر سے مانتا ہوں
ورنہ یہ جھوٹی باتیں میں خوب جانتا ہوں
خواجہ رکن الدین عشقؔ
خوب
عصر ھو جائے تو دھوپ ٹہرتی کب ھےہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
ٹھہرتی
جو بس میں ہو تو فقط اس پہ وار دی جائےعصر ھو جائے تو دھوپ ٹہرتی کب ھے
اب فقط لمحوں کو گن سال مہینوں سے نکل
فقط
چھپ اس طرح کہ ترا عکس بھی دکھائی نہ دےجو بس میں ہو تو فقط اس پہ وار دی جائے
یہ زندگی کہیں چھپ کر گزار دی جائے
چھپ