سب سوالوں کا اک جواب ہے عشق

عظیم

محفلین
غزل



سب سوالوں کا اک جواب ہے عشق
پھر بھی سنتے ہیں ہم، "خراب ہے عشق"

بندگی ساتھ ساتھ ہو تو ہے رحم
ورنہ کلفت کوئی، عذاب ہے عشق

ذلتیں، بے خودی، اذیت، موت!
کہنے کو اک حسین خواب ہے عشق

یہ جو خاموشیاں ہیں یوں ہی نہیں
چھپ کے بیٹھا کہیں، جناب! ہے عشق

یعنی پیچھے اسی کے پڑنا ہے
دو جہانوں میں کامیاب ہے عشق

سب سوالوں کا ہے جواب مگر
یہ بھی کہہ دوں کہ لاجواب ہے عشق

بخش دی روشنی اندھیروں میں
میری خاطر تو آفتاب ہے عشق

زندگی جس کے ساتھ ہو گی بسر
یوں لگایا گیا حساب ہے عشق

جانے وہ کون سی تھی نیکی عظیم
جانے کس چیز کا ثواب ہے عشق



×××××​
 

اے خان

محفلین
عنوان میں عشق کا ذکر کر کے آپ مجھے کھینچ لائے۔

اے خان کدھر ہو؟
یہی کہیں
کیسی ہے یہ
چل آ اک ایسی نظم کہوں
جو لفظ کہوں وہ ہو جائے

بس اشک کہوں تو اک آنسو
ترے گورے گال کو دھو جائے

میں آ لکھوں تو آ جائے
میں بیٹھ لکھوں تو آ بیٹھے

مرے شانے پر سر رکھے تو
میں نیند کہوں تو سو جائے

میں کاغذ پر ترے ہونٹ لکھوں
ترے ہونٹوں پر مسکان آئے

میں دل لکھوں تو دل تھامے
میں گم لکھوں دل کھو جائے

ترے ہاتھ بناؤں پنسل سے
پھر ہاتھ پہ تیرے ہاتھ رکھوں

کچھ الٹا سیدھا فرض کروں
کچھ سیدھا الٹا ہو جائے

میں آہ لکھوں تو ہائے کرے
بے چین لکھوں بے چین ہو تو

پھر میں بے چین کا ب کاٹوں
تجھے چین ذرا سا ہو جائے

ابھی ع لکھوں تو سوچے مجھے
پھر شین لکھوں تری نیند اڑے

جب ق لکھوں تجھے کچھ کچھ ہو
میں عشق لکھوں تجھے ہو جائے
 
Top