کیمیا کی گرم بھٹی سے اردو کی ابلتی ہانڈی تک!
میرا نام عرفان سعید ہے، اور میری پیدائش لاہور کے علاقے رحمان پورہ میں ہوئی ، جوایک ایسا محلہ ہے جہاں گلیاں تنگ، خواب بڑے، اور بجلی چھوٹی ہوتی ہے۔ والدین نے میری آمد پر خوشی کا اظہار کچھ یوں کیا جیسے کسی نے پرانی سائیکل کے ٹائر میں نئی ہوا بھر دی ہو، یاجیسے پرانی رضائی کو دھو کر دوبارہ استعمال کے قابل سمجھا گیا ہو۔ لیکن اس میں میری ذاتی رائے کبھی شامل نہ تھی۔نانی بتایا کرتیں تھی کہ تمہارے والدین خوش ضرور تھے، لیکن ساتھ میں حیران اور پریشان بھی کہ یہ بچہ اتنا سنجیدہ کیوں ہے؟ شاید انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ بچہ آگے چل کر اردو اور وہ سب مضامین جو میرے ابا کو پسند تھے، چھوڑ کر کیمیا پڑھے گا !
نانی نے بڑے مان سے پیش گوئی کی تھی کہ "یہ بچہ بڑا ہو کر کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا، کم از کم محلے میں مشہور تو ہو گا، چاہے بجلی کے میٹر اتارنے میں ہی کیوں نہ ہو!"
لیکن افسوس، نہ محلے میں مشہور ہوا، نہ میٹر اتارے — ہاں، والدین کے ارمان ضرور زمین پر آ گرے جب انہوں نے دیکھا کہ بچپن میں جب دوسرے بچے پتنگیں اُڑا رہے ہوتے تھے، میں کیمیا کی کتابیں اُٹھا رہا ہوتا تھا—یعنی بچپن سے ہی زندگی کو خواہ مخواہ مشکل بنانے کا شوق تھا۔
زندگی کے اٹھائیس برس لاہور میں بسر ہوئے، اور چونکہ لاہور والوں کو اکثر یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے کہ “بسر ہونا” مثبت چیز ہے، اس لیے واضح کرتا چلوں کہ زندہ بھی تھا، اور کبھی کبھی خوش بھی۔ تعلیم کا آغاز ایک ایسے اسکول سے ہوا، جہاں سائنس پڑھانے والے اُردو گرامر کے لحاظ سے “تجربہ” اور “حادثہ” میں فرق نہ بتا سکتے تھے۔ ہائی سکول میں سائنس کے مضامین اس طرح چُنے جیسے بچہ برفیوں کی دکان میں صرف سفید برفی کو پسند کرے یا جیسے کوئی شخص ہوٹل میں جا کر "سب سے زیادہ مرچوں والا سالن" مانگ لے ۔ جب سب دوست آرٹس یا کامرس میں جا رہے تھے، میں نے سائنس کا انتخاب ایسے کیا جیسے میلے میں سب جھولا جھولنے آئیں اور کوئی پکوڑوں کے پیچھے بھاگ کھڑا ہو۔ایف ایس سی میں اپنے دوستوں پر رعب جمانے کے لیے کیمسٹری کا انتخاب کیا کہ ہم اس شیریں کے عشق میں فرہاد کی تقلید میں تیشہ نہ سہی کم از کم اس کے بجائے شیشے کی فلاسک سے ہی کوئی رنگدار محلول بہا دکھائیں گے، لیکن جلد ہی یہ احساس ہوا کہ یہ محبت اور دعوائے محبت یک طرفہ ہے۔ میں کیمیا کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا اور کیمیا مجھے۔ اس سمجھ اور ناسمجھی کے کھیل میں پتا ہی نہیں چلا اور میں نامیاتی کیمیا کے عشق میں ایسا گرفتار ہوا کہ نہ کوئی کیمیکل ری ایکشن روک سکا، نہ کوئی کیمیکل بانڈتوڑ سکا۔ ایسا تعلق بنا کہ کبھی کبھی سوچا کرتا تھا کہ نکاح نامہ بھی ساتھ ہونا چاہیے۔
جامعہ پنجاب میں ایم ایس سی کے دوران حالات کچھ ایسے تھے کہ کبھی بجلی نہیں، کبھی پانی نہیں، اور کبھی استاد نہیں۔ لیکن ہم نے ہار نہیں مانی، کیونکہ ہم لاہور کے رہنے والے ہیں، جہاں سری پائے اور مرغ چنے بھی تحقیق کے بغیر نہیں بنتے۔ آخرکار، امتیازی حیثیت سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی نے اعزاز میں تمغہ زر دیا۔ امی نے تمغہ زر کو فریم کر کے ایسے سجا دیا جیسے کوئی شاہی فرمان ہو جس سے ہر رشتے دار کو مرعوب کرنا فرض ہو۔ مہمان آتے ہی پہلے پانی پوچھا جاتا، پھر تمغہ دکھایا جاتا۔ لیکن میری نظر مستقل اس تمغے پر تھی کہ اگر کبھی زنداگی میں اپنی مرضی سے شادی کرنے کی نوبت آگئی اور اماں تیار نہ ہوئیں تو شادی کی انگوٹھی اسی تمغۂ زر سے بنوا لیں گے۔پھر قسمت نے جاپان کا دروازہ کھولا۔ جاپان میں لوگ اتنے مؤدب ہیں کہ اگر آپ ان کے پاؤں پر بھی چڑھ جائیں تو معذرت وہ کریں گے۔ اور اگر آپ دو بار چڑھیں تو جُھک کر شکریہ بھی ادا کر دیں گے کہ "آپ نے ہمیں برداشت کرنے کا موقع دیا"۔ جاپان میں قطار اتنی مضبوط چیز ہے کہ زلزلے کے دوران بھی لوگ لائن توڑنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایک بار ٹرین پورے 43 سکینڈ لیٹ ہو گئی ، تو معذرتی اعلان آیا، پھول دیے گئے، اور ڈرائیور نے خود کو سزا کے طور پر اگلے اسٹیشن تک کھڑے ہو کر چلایا۔ وہاں تحقیق اس سنجیدگی سے ہوتی ہے جیسے کوئی خاندانی رشتہ نبھایا جا رہا ہو۔ تجربہ ناکام ہو تو سائنسدان باقاعدہ معافی مانگتا ہے، کامیاب ہو تو جھک کر کیمیکل کا شکریہ ادا کرتا ہے۔
پھر جرمنی کا رخ کیا، جہاں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں پولیمرز کے ساتھ ایسا رشتہ قائم ہوا جیسے اردو شاعری میں محبوب کے ساتھ ہوتا ہے—یعنی پیچیدہ، گہرا، اور اکثر سمجھ سے باہر۔ وہاں کے لوگ کم بولتے ہیں، لیکن جب بولتے ہیں تو صرف جرمن میں، اور وہ بھی ایسے لہجے میں جیسے کسی نے کیمیکل ری ایکشن کو غصہ دلا دیا ہو۔ انسٹیٹیوٹ کے جرمن پروفیسر جب اپنا نیا سائنسی نظریہ سمجھاتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے نازی دور کی توپیں دوبارہ پوزیشن لے رہی ہوں — ہر لفظ میں ایک ڈسپلن اور دوآرڈرز چھپے ہوتے تھے۔ لیبارٹری میں اگر کوئی پائپ 2 ملی میٹر ٹیڑھا ہو، تو جرمن سائنسدان یوں گھورتا ہے جیسے تم نے صرف تجربہ نہیں، بلکہ اُس کے دادا کی پگڑی ٹیڑھی کر دی ہو۔اب فِن لینڈ میں ہوں، جہاں سورج چھپنے کا وقت اور لوگوں کے چہرے کے تاثرات دونوں ہی نایاب ہیں۔ یہاں ایک بین الاقوامی کمپنی میں کام کر رہا ہوں، جہاں تحقیق کا مطلب ہے "کافی پیو، سوچو، اور پھر دوبارہ کافی پیو"۔ یہاں کے لوگ اتنے خاموش ہیں کہ اگر کوئی زور سے چھینک دے تو پورا دفتر اسے پبلک اسپیکر سمجھ لیتا ہے۔
کالج میں اردو پڑھنا کچھ ایسا تھا جیسے کسی نے زبردستی آپ کو قوالی سننے بٹھا دیا ہو جب آپ صرف پاپ میوزک کے فین ہوں۔ یا کچھ ایسے تھا کہ بندے کو ہیر رانجھا کی داستان سمجھائی جا رہی ہو، جبکہ اس کے دل میں صرف فزکس کا پریکٹیکل دھڑک رہا ہو۔ اب اُس ماحول کا کیا ذکر کیجیے جہاں ہر شخص یا تو ڈاکٹر بننے کے خواب میں ہڈیاں تڑوا رہا ہو یا انجینئر بننے کی دوڑ میں کیلکولیٹر کی چابیوں سے انگلیاں چھلوا رہا ہو۔ شعور و آگہی کی بات کریں تو طلبہ کا بس نہیں چلتا تھا کہ ناپ تول کر شعور کو بھی گریڈ پوائنٹس میں تبدیل کر لیں۔ ایسے میں اردو زبان کی نزاکت و لطافت پر بات کرنا ایسا ہی تھا جیسے امتحان میں شاعری کے ذوق کی جگہ “بوائلنگ پوائنٹ آف ہائیڈروجن” لکھ دینا۔ استادِ محترم جب مرزا غالب کی غزل پڑھاتے تو کلاس میں ایسا سناٹا ہوتا جیسے سب طلبہ اجتماعی طور پر کسی روحانی واردات میں مبتلا ہوں، حالانکہ حقیقت میں سب کے ذہن میں یہی سوال گونج رہا ہوتا: "یہ شعر امتحان میں آئے گا یا نہیں؟"
ایک دن اردو کے استاد نے پوچھا، "بیٹا، غالب کا اصل نام کیا تھا؟"
ایک ذہین طالبعلم نے فوراً جواب دیا، "سر! غالب ہی تو اصل نام ہے، باقی سب عرفی نام ہیں!"
استاد نے چشمہ اتار کر ایسے گھورا جیسے غالب کی روح کو بھی شرمندہ کر دیا ہو۔ خیر، جب نمبروں کی اس میراتھن میں سانس کچھ بحال ہوئی تو اردو نثر کی کچھ کتابیں ہاتھ لگ گئیں۔ جیسے کوئی تھکا ہارا مسافر ٹھنڈی چھاؤں پا لے۔ یا جیسے کسی نے پرانی محبوبہ کی ڈائری دے دی ہو۔
ہر صفحہ پڑھ کر دل کرتا، "ارے واہ! یہ تو میں بھی لکھ سکتا تھا!"
میں نے سوچا کہ اردو ادب کا ذائقہ لیا جائے، مگر چونکہ طالبعلم ہوں، اس لیے صرف چکھا، نگلا نہیں۔ کبھی کبھار میں بھی کچھ لکھنے بیٹھ جاتا، اور اگرچہ قلم خود شرماتا تھا، مگر دل خوش تھا کہ کچھ تو کیا۔حقیقت میں قلم نے ایسا سلوک کیا جیسے کسی نے اسے بجلی کا بل بھرنے کو کہا ہو۔
پھر بی ایس سی میں آ گیا۔ اردو ایسے غائب ہوئی جیسے شادی کے بعد دوستوں کی دعوتیں، یا جیسے موبائل فون میں بیٹری ختم ہوتے ہی سگنل ۔ اب کیمسٹری تھی، جس میں ایسڈ بیس ری ایکشن سمجھنا تھا، اور اردو کا کوئی محاورہ یاد آتا تو لگتا جیسے کوئی کیمسٹری کے پرچے میں "اونٹ کے منہ میں زیرہ" لکھ دے۔ اب زبان و بیان کی لطافتوں کے بجائے “کوویلنٹ بانڈ” اور “آئیونک کمپاؤنڈ” نے جگہ لے لی۔ نہ وقت تھا، نہ طبعیت، نہ فرصت، اور نہ وہ لال رنگ کی روشنائی جس سے اردو کے استاد سرخ لکیریں کھینچا کرتے تھے۔یوں رفتہ رفتہ اردو ادب سے ناطہ کچھ یوں ٹوٹا جیسے موبائل کا سگنل سےلفٹ میں، اچانک، مکمل اور بغیر وارننگ! اردو ادب سے بے وفائی کے بعد میں مکمل طور پر سائنسی مضامین کے ہجرت زدہ قبیلے میں شامل ہو چکا تھا۔ اب میرا دن "ایٹمی وزن"، "مالیکیولر آربیٹل" اور "ریڈوکس ری ایکشن" جیسے مہیب الفاظ کے سائے میں گزرتا تھا۔ اردو کی شیرینی کہیں پی ایچ سکیل کے تلخ تجربات میں تحلیل ہو چکی تھی۔ کالج میں دوبارہ داخل ہوئے تو ایسا لگا جیسے اردو کتابوں کو لائبریری سے نکال کر کسی سرد خانے میں رکھ دیا گیا ہو، جہاں وہ غالبؔ کی طرح صرف "نقش پا" بن کے رہ گئیں۔
تعلیم کا بوجھ، خود کفالتی کی مشقتیں، اور اوپر سے سارا دن کیمیا کے حلال تجربات میں سر کھپانا، مجھے توایسا لگتا تھا جیسے کسی نے زندگی کے خالی صفحے پر صرف کیمیکل فارمولا ہی لکھنے کا ٹھیکہ دے دیا ہو۔ اردو کا تو نام لینا بھی جرم تھا۔ کسی سے کہہ دیتے کہ "اقبال کے خطبے پڑھ رہا ہوں"، تو وہ سمجھتا میں "اقبال ہال" کے باہر نوٹس بورڈ پڑھ رہا ہوں۔جو زبان کبھی میری ڈائری کے صفحات پر جھوم جھوم کر رقصاں تھی، اب محض لیبارٹری رپورٹس کی خشک سطروں میں دفن ہو چکی تھی۔ اور میں اب "FeSO₄ + KMnO₄ →" جیسی سسپنس بھری مگر بے ذائقہ مساواتوں کا فدائی بن چکا تھا۔یوں اردو کی حسین وادیوں میں جو میں کبھی خراماں خراماں پھرتا تھا، اب وہاں محض کیمیکل گودام کے سناٹے گونجتے تھے۔ غالبًا اردو اور میری دوستی اب صرف اتنی رہ گئی تھی جتنی دو محلے داروں کی جو بس عید پر "سلام دعا" کرتے ہیں، اور باقی سال ایک دوسرے کو صرف "اوئے!" کہہ کر یاد کرتے ہیں۔
دو دہائیاں گزر چکی تھیں اور میں عناصر کی ترکیبیں جانتا تھا، مگر جملوں کی تراکیب پر زور زور سےسر کھجاتا اور پھر سر پکڑ کر بیٹھ جاتاتھا۔ اردو کی وادیوں سے نکل کر کیمیا کی بھٹی میں آ بیٹھا تھا، جہاں ہر دن کوئی چیز پھٹنے کا خدشہ رہتا تھا—کبھی تجربہ، کبھی صبر، کبھی دماغ! ایک دن دل کیا کہ اردو کی کتاب دوبارہ کھولوں۔
جیسے ہی کتاب کھولی، بیگم کی آواز آئی، "ادھر آکر یہ آلو چھیل دیں، مہمان آ رہے ہیں!"
کتاب بند، اردو بند، اور میں آلوؤں کے ساتھ اپنے خواب بھی چھیلتا رہا۔اب زندگی کی گاڑی ایسی پٹری پر تھی جہاں ادب کا اسٹیشن کہیں دور رہ گیا تھا۔ کبھی کبھی دل کرتا تھا کہ واپس پلٹوں، غالب سے معافی مانگوں، اور اردو سے کہوں، "بس ایک موقع اور دے دو، اب کی بار تمہیں صرف امتحان کے لیے نہیں، دل کے لیے پڑھوں گا۔"
9 نومبر کی صبح تھی، اور میں حسبِ معمول ناشتہ کرتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ آج کیا بہانہ بنایا جائے دفتر نہ جانے کا۔ اتنے میں ایک پیغام آیا:"یومِ اقبال کی تقریب ہو رہی ہے!"
میں نے موبائل کو غور سے دیکھا، جیسے وہ اچانک علامہ اقبال کا خواب بن گیا ہو۔ دل میں ایک عجیب سی ہلچل ہوئی، جیسے کسی نے دل کے تاروں کو نہیں بلکہ وائی فائی کو چھیڑ دیا ہو۔تقریب میں پہنچا تو ماحول کچھ ایسا تھا جیسے اردو زبان خود اپنی سالگرہ منانے آئی ہو، اور ساتھ میں اقبال صاحب بھی کہیں بادلوں کے پیچھے سے جھانک رہے ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ ان کے نام پر کیا گل کھلائے جا رہے ہیں۔جب مجھے مائیک تھمایا گیا تو میں نے اُسے ایسے تھاما جیسے کوئی بچہ پہلی بار آئس کریم تھامتا ہے—خوشی بھی، گھبراہٹ بھی، اور تھوڑا سا چپکنے کا خدشہ بھی۔
میں نے کہا: "اقبال کی شاعری کے بغیر اُردو زبان ایسے ہے جیسے قورمہ بغیر گوشت، قوالی بغیر ہارمونیم، اور سیاست بغیر وعدہ خلافی!"
ایک صاحب نے اتنی زور سے تالی بجائی کہ ان کی گھڑی ہاتھ سے نکل کر سامنے والی میز پر جا گری۔
میز پر بیٹھے صاحب نے گھڑی اٹھا کر کہا، "یہ وقت بھی اقبال کا ہے!"میں نے مزیدگھڑیاں ہاتھوں سے چھڑانے کے لیے عرض کیا:
"اگر کُلیاتِ اقبال کو اُردو سے نکال دیا جائے تو یہ وہ نیام ہے جس میں تلوار نہیں، وہ قوم ہے جس کے پاس صرف سیلفیاں ہیں، اور وہ حکمران ہیں جو صرف 'قوم سے خطاب' کرتے ہیں، عمل نہیں۔"
ایک خاتون نے سر ہلایا، جیسے کہہ رہی ہوں: "بیٹا، تم نے دل کی بات کہی ہے، لیکن ذرا آہستہ کہو، میرے شوہر بھی سیاستدان ہیں۔"
پھر میں نے فلسفے کا تڑکا لگایا:
"انسان جب خود فراموشی کے نشے میں ہو تو اُسے آئینہ بھی فیس فلٹر لگایا ہوا لگتا ہے، اور جب شوقِ جستجو میں ہو تو وہ گوگل پر 'اقبال کون تھے؟' لکھ کر خود کو دانشور سمجھنے لگتا ہے۔"
آخر میں جب میں نے تقریر ختم کی تو سامعین نے ایسا تالیاں بجائیں جیسے میں نے اقبال کی شاعری نہیں، بلکہ بریانی کی دیگ بانٹ دی ہو۔
یومِ اقبال کی تقریب میں شرکت کا ارادہ کچھ یوں کیا جیسے کوئی فلسفی یونانی دیوتاؤں کی مجلس میں جا رہا ہو۔ دل میں خیال آیا کہ اقبال کے افکار سے کچھ روشنی کشید کی جائے تاکہ زندگی کی تاریکیوں میں روشنی کی کرن دکھائی دے۔ لیکن جونہی تقریب ختم ہوئی، روشنی تو کیا آنکھیں چندھیا گئیں۔ گھر پہنچا تو دل میں ایک عجیب سی ہلچل تھی۔ جیسے غالب کا کوئی مصرعہ حافظ کے دیوان سے جھگڑنے آ گیا ہو۔ سوچا، کل سے زندگی کو نئے سرے سے شروع کروں گا، لیکن اقبال کی شاعری نے ایسا گھیراؤ کیا کہ گویا میں کوئی نوآموز عاشق ہوں اور اقبال کی غزل کوئی نازنین۔
صبح اٹھا تو چائے کی جگہ "خودی کو کر بلند اتنا" کا نعرہ سنائی دیا۔
ناشتہ کرنے بیٹھا تو انڈے نے کہا: " تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا "
اور پراٹھے نے فلسفیانہ انداز میں فرمایا: " اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو !"
دفتر جانے کا ارادہ کیا، لیکن آئینے میں خود کو دیکھا تو لگا جیسے میں "شاہین" بننے کے چکر میں "مرغا" بن چکا ہوں۔
دل نے کہا، "اٹھ، کچھ کر!" لیکن جسم نے کہا، "پہلے قہوہ پلا!"
اب حال یہ ہے کہ ہر بات میں اقبال بولتے ہیں۔ موبائل کی بیٹری ختم ہو تو لگتا ہے "ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں"۔
انٹرنیٹ سست ہو تو خیال آتا ہے "سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں"۔
راستے میں ہر چیز اقبال بن گئی۔ سگنل پر کھڑا ٹریفک پولیس والا مجھے "مردِ مومن" لگا، جو "ضربِ کلیم" کے اشارے سے گاڑیوں کو روک رہا تھا۔ ایک کتا سڑک پار کر رہا تھا، تو دل میں خیال آیا:"یہ بھی شاید اپنی خودی کی تلاش میں ہے!"
دفتر پہنچا تو باس نے پوچھا، "کام مکمل ہوا؟"
میں نے کہا، "ابھی تو میں خودی کی تعمیر میں مصروف ہوں"
باس نے کہا، "تو پھر تنخواہ بھی خودی سے لے لینا!
جب آگ بھڑک ہی چکی تھی — اور میرا مطلب وہ والی آگ نہیں جو باورچی خانے میں لگتی ہے، بلکہ وہ جو دل میں لگتی ہے اور دماغ کو تندور بنا دیتی ہے — تو میں نے بھی تہیہ کر لیا کہ اب کی بار عقل کو کیمیا گری کے چکر میں نہیں ڈالوں گا۔ پچھلی بار جب عقل نے ترکیبِ آتش نکالنے کی کوشش کی تھی تو نہ تو آگ ملی، نہ ہی کوئی روشنی، بس دھواں ایسا کہ میرے پڑوسیوں نے فائر بریگیڈ کو فون کر دیا، اور میں خود بھی ڈر گیا کہ کہیں میں نہیں جل رہا! اب کی بار میں نے کہا، چلیں روح کو بھی اس آگ میں تاپ لیتے ہیں۔ کم از کم کچھ خیال تو نکلیں، ورنہ یہ سارا درد بھی کیا فائدہ! تو قلم ہاتھ میں لیا، کاغذ نکالا اور کچھ الفاظ کو نخرے دکھانے کے لیے تیار کر لیا، کیونکہ جو لفظ نخرے نہ کرے، وہ ادب میں شمار کہاں ہوتا ہے؟ پرانا رشتہ جو قلم و کاغذ سے ٹوٹ گیا تھا، اب دوبارہ جُڑ گیا ہے، جیسے کوئی پرانا دوست اچانک فون کر کے کہے، “یار، وہ آخری خط یاد ہے؟” اب میں بھی خوش ہوں، جیسے شبِ عروسی منا رہا ہوں، لیکن کاغذ اور قلم کے ساتھ، کیونکہ شادی میں دلہن کے نخرے ہوتے ہیں اور ادبی شادی میں الفاظ کے! اب میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ یہ طائرِ بے منزل — یعنی میں — خامہ فرسائی کی تلوار سے مسلسل زخمی ہوتا رہے، اور لوگ کہیں، “واہ بھئی، کیا لکھا ہے!” چاہے وہ لائک کے بٹن کے ذریعے ہی ہو۔ کیونکہ سچی بات تو یہ ہے، داد ملے تو حوصلہ بھی بڑھتا ہے، ورنہ قلم تو بس پنسل کی طرح ہے، جسے ہم ضرورت کے وقت نکالتے ہیں اور پھر کسی ڈبے میں رکھ دیتے ہیں۔
اسی تلاش و جستجو میں پھر وقت کا وہ پہیہ جو کبھی دو دہائیوں سے صرف کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن کے گردگھماتا رہا تھا، اچانک ایک روز کروٹ بدل گیااور زندگی نے دوبارہ اردو سے نظریں ملا لیں۔ ہوا یوں کہ ایک دن کسی کام کے بہانے انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کر رہا تھا—میری نیت پولیتھین اور اس قبیل کے چند اور پلاسٹک کی پروپرٹیز پر تھی، مگر قسمت مجھے اردو محفل کے کوچے میں لے آئی۔ یہ کچھ ویسا ہی تھا جیسے بندہ سڑک پار کرنے نکلے اور اچانک شادی کے کارڈ والے دفتر میں جا بیٹھے۔ میں نے پہلے تو اردگرد نظریں دوڑائیں، کہیں خالص ادبی لوگوں کے جھتے نہ ہوں جو "ادب کے وقار" کے نام پر نوآموزوں کو "فلسفۂ لطیف" سمجھانے بیٹھ جائیں۔ لیکن شکر ہے، فورم پر بھی کچھ میرے جیسے گم گشتہ عاشق موجود تھے—جو کبھی شاعری کو "کاپی پیسٹ" اور نثر کو "دل کی بھڑاس" سمجھا کرتے تھے۔
شروع شروع میں کچھ جھجھک سی تھی—اردو کے الفاظ لکھتے ہوئے انگلیاں تھرتھراتی تھیں جیسے بی ایس سی کا فزکس کا پرچہ ہو۔
"ی" کی جگہ "ے" اور "تاثّر" کی جگہ "تاصر" لکھ بیٹھا تو فوراً ضمیر نے گریبان پکڑ لیا: "ابے! تُو وہی ہے نا جو کالج میں فرحت اللہ بیگ کے مضامین سے چٹخارے لیا کرتا تھا؟ اب علامتیں بھی نہیں آتیں تجھے؟ شرم کر!"
بس اسی خودکلامی سے حوصلہ بڑھا اور آہستہ آہستہ قلم—یعنی کی بورڈ—سے دوستی بحال ہونے لگی۔ پھر کیا تھا، جیسے کسی نے چھپ کر اردو بناؤ سنگھار اور عطریات کی بوتل پلائی ہو، ہماری نثر بھی آہستہ آہستہ تیز خوشبو چھوڑنے لگی۔اب کبھی کبھی شام کو، جب تجربہ گاہ سے تھکے ہارے لوٹتا ہوں اور سائنسی ریسرچ مجھے یوں دیکھتی ہے جیسے پرانے محلے کی چچی شادی میں نہ بلانے کا طعنہ دے رہی ہو، تو میں چپکے سے اردو محفل پر آ بیٹھتا ہوں۔ وہاں کوئی استادِ محترم کسی بحرِ ہزج میں غوطہ زن ہوتے ہیں، اور کچھ شاعر حضرات"واؤ معدول" کا ماتم کرنے میں ایسے مصروف دکھائی دیتے کہ ساری دنیا کے مصائب کا علاج یہی ہے۔ یہاں کوئی “واؤ معدول” کا غم، کوئی بحرِ ہزج کی الجھن، اور کوئی محلے کی چچی کی شادی کی نا دعوتی کی یادیں، سب کچھ مل کر ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ادب اور مزاح کے بغیر زندگی کا سفر ادھورا ہے، اور زندگی کو سنجیدگی سے لینے سے بہتر ہے کہ کبھی کبھار اسے اردو محفل میں ہنس ہنس کر جیا جائے۔