تاسف شمس الرحمٰن فاروقی انتقال فرما گئے۔

اردو ادب کا ایک اور سورج غروب ہوا۔
ایک عہد تمام ہوا۔
مشہور نقاد شمس الرحمٰن فاروقی انتقال فرما گئے۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ آمین

انا للہ و انا الیہ راجعون
 

الف عین

لائبریرین
ارے، یہ کب ہوا، خبر تو ملی تھی کہ اب بہتر ہو گیے اور اسپتال سے گھر آ چکے؟ بہر حال خدشہ تو تھا ہی۔ موذی کورونا کے بہت بڑے شکار۔ ایک بہت بڑا ستون۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا لکھا جائے۔
معفرت کی دعا تو کرنی ہی یو گی اور صبر بھی لیکن جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ نہیں بھر سکتا۔
ابھی ابھی میں نے سمت مکمل کرکے اپلوڈ کیا ہے، شاید اب پھر واپس کر کے اس بات کا اضافہ کرنا یو گا، خراج عقیدت تو پیش نہیں کیا جا سکتا۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون

کافی دنوں سے یہی سننے میں آ رہا تھا کہ علیل ہیں۔ جو کام انہوں نے غالب و میر پر کیا اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اردو ادب کے لئے یہ ایک تاریک دن ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مرحوم پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔
 

فاخر

محفلین

معروف نقاد ،شاعر اورمصنف شمس الرحمٰن فاروقی کا 85 سال کی عمر میں انتقال


qaumiawaz%2F2020-12%2F82e69d12-9b32-4301-bc6e-ffe895d152a7%2Fshamsurrahman_faruqi01.jpg


نئی دہلی،لکھنؤ 25 دسمبر (یواین آئی)
اردو کے معروف شاعر اور مصنف شمس الرحمن فاروقی کا 85 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ وہ کافی وقت سے علیل چل رہے تھے۔ فاروقی آج صبح ہی دہلی سے پرواز کے ذریعے الہ آباد پہنچے تھے، جہاں صبح 11.20 پر ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی تدفین آج یعنی جمعہ کی شام 6 بجے جامعہ کے نزدیک اشوک نگر کے قبرستان میں انجام دی جائے گی۔ شمس الرحمن کے انتقال سے ادبی دنیا کو ناقابل تلافی نقصال پہنچا ہے۔قابل ذکر ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے ادبی قدر کے نئے ماڈل تشکیل دیئے تھے۔ انہوں نے ادبی تنقید کے مغربی اصولوں کو ملحوظ نظر رکھا اور بعد میں انھیں اردو ادب میں نافذ کیا۔
شمس الرحمن 30 ستمبر 1935 کو یوپی میں پیدا ہوئے تھے۔ آزاد خیال ماحول میں پرورش پانے والے شمس الرحمن نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی مقامات پر ملازمت کی۔ انہوں نے 1960 میں ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ 1960 سے 1968 تک وہ انڈین پوسٹل سروسز میں پوسٹ ماسٹر رہے اور اس کے بعد چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور 1994 تک پوسٹل سروسز بورڈ، نئی دہلی کے رکن بھی رہے۔

شمس الرحمٰن نے امریکہ کی پنسلوینیا یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشا ریجنل اسٹڈیز سینٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ وہ الہ آباد میں ’شب خوں‘ میگزین کے ایڈیٹر رہے۔ ان کی تصنیف ’کئی چاند اور تھے سرِ آسماں‘، ’افسانے کی حمایت میں‘ اور ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ کو اردو ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
شمس الرحمٰن کو اردو میں تنقید نگاری کا ماہر قرار دیا جاتا تھا۔ انہیں ’سرسوتی ایوارڈ‘ کے علاوہ 1986 میں اردو کے لئے ’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔ سال 2009 میں انہیں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
ارے، یہ کب ہوا، خبر تو ملی تھی کہ اب بہتر ہو گیے اور اسپتال سے گھر آ چکے؟ بہر حال خدشہ تو تھا ہی۔ موذی کورونا کے بہت بڑے شکار۔ ایک بہت بڑا ستون۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا لکھا جائے۔
معفرت کی دعا تو کرنی ہی یو گی اور صبر بھی لیکن جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ نہیں بھر سکتا۔
ابھی ابھی میں نے سمت مکمل کرکے اپلوڈ کیا ہے، شاید اب پھر واپس کر کے اس بات کا اضافہ کرنا یو گا، خراج عقیدت تو پیش نہیں کیا جا سکتا۔
میں نے بعد میں اپنے دوست مصحف اقبال توصیفی صاحب کو فون کیا تو انہیں اطلاع مل چکی تھی، اور یہ خبر دو بجے انہیں امریکہ سے احمد مشتاق کے فون سے ملی! کوئی دو ہفتے پہلے فاروقی صاحب کا ویڈیو کال بھی مصحف صاحب کو ملی تھی جس میں بھی انہوں نے یہی کہا تھا کہ وہ الہ آباد جانے کا ارادہ کر رہے ہیں لیکن بیٹیاں نہیں جانے دے رہی ہیں، آخر مجبور ہو کر پرسوں ہی آلہ آباد لے کر گیے تھے۔
 
Top