سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کردیا

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے معاملے کو متنازعہ بنانے والے تمام ذمے داران کیخلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا
پی ایم ہاوس میں ہونے والے اجلاس کے دوران عمران خان نے سمری میں بار بار غلطیاں کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا، عدالتی فیصلے کے فوری بعد غفلت کے مرتکب افسران کیخلاف کاروائی کی جائے گی
1530281096_admin.jpg._1
محمد علی بدھ 27 نومبر 2019 21:39

pic_a4599_1574418720.jpg._3


اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 27 نومبر 2019ء) وزیراعطم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے معاملے کو متنازعہ بنانے والے تمام ذمے داران کیخلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا، پی ایم ہاوس میں ہونے والے اجلاس کے دوران عمران خان نے سمری میں بار بار غلطیاں کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا، عدالتی فیصلے کے فوری بعد غفلت کے مرتکب افسران کیخلاف کاروائی کی جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم کی زیر صدارت وزیراعظم ہاوس میں ہونے والے اہم ترین اور ہنگامی اجلاس میں وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری میں بار بار غلطیاں کیے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری میں غلطیاں کیسے کی گئیں۔

وزیراعظم نے واضح کیا کہ اس معاملے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ کیے جانے کے بعد غفلت کے مرتکب تمام افسران اور ذمے داران کیخلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ جبکہ اجلاس کے دوران آرمی چیف نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اپنی مدت ملازمت کی توسیع کیلئے تیار کی گئی سمری اور نوٹیفیکیشن میں موجود فرق کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔ مزید بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں سپریم کورٹ میں ہونےوالی سماعت پرمشاورت کی گئی۔ سپریم کورٹ کےاٹھائےگئےسوالات پرغورکیاگیا۔ وزیراعظم کی لیگل ٹیم نےسپریم کورٹ کےاعتراضات پرشق واربریفنگ دی۔ جبکہ سپریم کورٹ کےسمری پراٹھائےگئےاعتراضات پرآرمی چیف سےبھی مشاورت کی گئی۔ اجلاس کے دوران آرمی چیف کی مدت ملازمت مین توسیع کیلئے سپریم کورٹ کےاعتراضات کی روشنی میں نیامسودہ تیار کیا گیا۔ نیامسودہ سپریم کورٹ کےاعتراضات کومدنظررکھ کربنایاگیا اور اس کی تیاری کیلئے معروف قانونی ماہرین کی خدمات لی گئیں۔ وفاقی کابینہ سےمنظوری کیلئے سمری ارکان کابینہ کو سرکولیٹ کیے جانے کا امکان ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے پر ہر صورت قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے قانونی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ کل مکمل تیاری کیساتھ سپریم کورٹ میں پیش ہوا جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ حکومت کسی بھی قسم کا غیر قانونی یا غیر آئینی قدم نہیں اٹھائے گی۔ اجلاس کے دوران یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ہر صورت یہ تاثر زائل کیا جائے کہ فوج اور عدلیہ کے درمیان کسی قسم کا ٹکراو ہے۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے قانون اور آئین سے ہٹ کر ہوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ جبکہ یہ تمام معاملہ کل تک ہر صورت حل کر لیا جائے گا۔ اس سے قبل آرمی چیف وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کیلئے وزیراعظم ہاؤس پہنچے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، اٹارنی جنرل، فروغ نسیم، سیکرٹری قانون اور کابینہ کے سینئیر اراکین نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ بحران کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کرنے کیلئے کابینہ کے سینئیر اراکین کا اجلاس طلب کیا۔ اجلاس میں لیگل ٹیم نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم آفس میں بلائے گئے اجلاس میں سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات پر مشاورت کی گئی۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اجلاس میں بابر اعوان کو بھی خصوصی طور پر بلایا۔ جبکہ واضح رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق بدھ کے روز سپریم کورٹ میں ہونے والی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ سماعت کے دوران طویل بحث ہوئی جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت 28 اور 29 کی درمیانی شب ختم ہو رہی ہے۔ وقت کم ہے جلد فیصلہ کرنا ہو گا۔
 

سید ذیشان

محفلین
وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے معاملے کو متنازعہ بنانے والے تمام ذمے داران کیخلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا
پی ایم ہاوس میں ہونے والے اجلاس کے دوران عمران خان نے سمری میں بار بار غلطیاں کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا، عدالتی فیصلے کے فوری بعد غفلت کے مرتکب افسران کیخلاف کاروائی کی جائے گی
1530281096_admin.jpg._1
محمد علی بدھ 27 نومبر 2019 21:39

pic_a4599_1574418720.jpg._3


اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 27 نومبر 2019ء) وزیراعطم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے معاملے کو متنازعہ بنانے والے تمام ذمے داران کیخلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا، پی ایم ہاوس میں ہونے والے اجلاس کے دوران عمران خان نے سمری میں بار بار غلطیاں کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا، عدالتی فیصلے کے فوری بعد غفلت کے مرتکب افسران کیخلاف کاروائی کی جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم کی زیر صدارت وزیراعظم ہاوس میں ہونے والے اہم ترین اور ہنگامی اجلاس میں وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری میں بار بار غلطیاں کیے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری میں غلطیاں کیسے کی گئیں۔

وزیراعظم نے واضح کیا کہ اس معاملے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ کیے جانے کے بعد غفلت کے مرتکب تمام افسران اور ذمے داران کیخلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ جبکہ اجلاس کے دوران آرمی چیف نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اپنی مدت ملازمت کی توسیع کیلئے تیار کی گئی سمری اور نوٹیفیکیشن میں موجود فرق کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔ مزید بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں سپریم کورٹ میں ہونےوالی سماعت پرمشاورت کی گئی۔ سپریم کورٹ کےاٹھائےگئےسوالات پرغورکیاگیا۔ وزیراعظم کی لیگل ٹیم نےسپریم کورٹ کےاعتراضات پرشق واربریفنگ دی۔ جبکہ سپریم کورٹ کےسمری پراٹھائےگئےاعتراضات پرآرمی چیف سےبھی مشاورت کی گئی۔ اجلاس کے دوران آرمی چیف کی مدت ملازمت مین توسیع کیلئے سپریم کورٹ کےاعتراضات کی روشنی میں نیامسودہ تیار کیا گیا۔ نیامسودہ سپریم کورٹ کےاعتراضات کومدنظررکھ کربنایاگیا اور اس کی تیاری کیلئے معروف قانونی ماہرین کی خدمات لی گئیں۔ وفاقی کابینہ سےمنظوری کیلئے سمری ارکان کابینہ کو سرکولیٹ کیے جانے کا امکان ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے پر ہر صورت قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے قانونی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ کل مکمل تیاری کیساتھ سپریم کورٹ میں پیش ہوا جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ حکومت کسی بھی قسم کا غیر قانونی یا غیر آئینی قدم نہیں اٹھائے گی۔ اجلاس کے دوران یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ہر صورت یہ تاثر زائل کیا جائے کہ فوج اور عدلیہ کے درمیان کسی قسم کا ٹکراو ہے۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے قانون اور آئین سے ہٹ کر ہوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ جبکہ یہ تمام معاملہ کل تک ہر صورت حل کر لیا جائے گا۔ اس سے قبل آرمی چیف وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کیلئے وزیراعظم ہاؤس پہنچے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، اٹارنی جنرل، فروغ نسیم، سیکرٹری قانون اور کابینہ کے سینئیر اراکین نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ بحران کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کرنے کیلئے کابینہ کے سینئیر اراکین کا اجلاس طلب کیا۔ اجلاس میں لیگل ٹیم نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم آفس میں بلائے گئے اجلاس میں سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات پر مشاورت کی گئی۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اجلاس میں بابر اعوان کو بھی خصوصی طور پر بلایا۔ جبکہ واضح رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق بدھ کے روز سپریم کورٹ میں ہونے والی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ سماعت کے دوران طویل بحث ہوئی جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت 28 اور 29 کی درمیانی شب ختم ہو رہی ہے۔ وقت کم ہے جلد فیصلہ کرنا ہو گا۔
یہ صاحبان تبھی جاگتے ہیں جب پانی سر سے گذر چکا ہوتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
مسٹر باجوہ کی بظاہر ایکسٹینشن نہیں بنتی ہے تاہم حکومتِ وقت اُن کے ساتھ 'ایزی' محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑھ چڑھ کر ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب، جن جرنیلوں کو اس ایکسٹینشن سے مسائل ہیں، وہ بھی بظاہر ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور ریاستی اداروں میں موجود کئی شخصیات ان کی بھی ہم نوا ہیں۔ اگر نیا آرمی چیف آتا ہے تو موجودہ حکومت کے لیے بھی مسائل میں کسی قدر اضافہ ہو سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ شاید آج ہی حل ہو جائے یا حد سے حد کل صبح تک۔ اس کے بعد بھی یہ تنازعہ برقرار رہا تو اداروں کی یہ 'جنگ' خطرناک صورت حال اختیار کر سکتی ہے۔
 
مسٹر باجوہ کی بظاہر ایکسٹینشن نہیں بنتی ہے تاہم حکومتِ وقت اُن کے ساتھ 'ایزی' محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑھ چڑھ کر ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب، جن جرنیلوں کو اس ایکسٹینشن سے مسائل ہیں، وہ بھی بظاہر ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور ریاستی اداروں میں موجود کئی شخصیات ان کی بھی ہم نوا ہیں۔ اگر نیا آرمی چیف آتا ہے تو موجودہ حکومت کے لیے بھی مسائل میں کسی قدر اضافہ ہو سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ شاید آج ہی حل ہو جائے یا حد سے حد کل صبح تک۔ اس کے بعد بھی یہ تنازعہ برقرار رہا تو اداروں کی یہ 'جنگ' خطرناک صورت حال اختیار کر سکتی ہے۔
آخری سطر سے متفق نہیں ہوں۔ یہ فی الحال تک کوئی جنگ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ ریاستی ٹولز سے (حکومت، بیوروکریسی) ایک فیصلے کا رولز آف بزنس سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

البتہ اگر اس کا انجام بحق متاثرین ہونے کے مواقع کم ہوتے دکھائی دئیے تو یقیناً ہیجانی کیفیات میں کوئی سرپھری طاقت بیوقوفانہ اقدام یا فیصلہ کر سکتی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
آخری سطر سے متفق نہیں ہوں۔ یہ فی الحال تک کوئی جنگ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ ریاستی ٹولز سے (حکومت، بیوروکریسی) ایک فیصلے کا رولز آف بزنس سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

البتہ اگر اس کا انجام بحق متاثرین ہونے کے مواقع کم ہوتے دکھائی دئیے تو یقیناً ہیجانی کیفیات میں کوئی سرپھری طاقت بیوقوفانہ اقدام یا فیصلہ کر سکتی ہے۔
ہماری دانست میں، دیگر جرنیل معاملے کو یہاں تک بھی لے آئے ہیں تو یہ حالیہ دھرنے کی بظاہر 'ناکامی'کے بعد اُن کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ معلوم ہوتا ہے، درونِ خانے خوب ہنگامے بپا ہیں جن کو چائے کی پیالی میں طوفان سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ شہرِ اقتدار کے بلند و بالا ایوانوں میں محلاتی سازشوں زوروں پر ہیں۔ موجودہ حکومت کا تو کسی کھاتے میں شمار نہیں۔ دراصل، گھر کے بڑے آپس میں الجھ پڑے ہیں۔ باجوہ صاحب کے متعلق شاید یہ طے کیا گیا ہے کہ صاحب کو بڑا بنایا تو جائے گا مگر پہلے نکو بنا کر۔ اس قدر سبکی کسی آرمی چیف کو آج تک اٹھانا نہ پڑی۔ ایک حد تک مسٹر باجوہ خود بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ بھلا، ایکسٹینشن کی کیا تُک بنتی ہے! اس ادارے میں کیا کوئی اور قابل جرنیل نہ رہا!
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
میرے عزیز ہم وطنو!!
کسی کی دو ٹَکیا کی نوکری کے لیے
آپ اپنا لاکھوں کا وقت کیوں برباد کر رہے ہیں۔:)
ہماری تنقید کو دل پر نہ لیا جائے۔ ہم نے لا ابالی تجزیہ کاری میں ایم۔فل کر رکھا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تیسرے دن کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔
ایکسٹینشن معطل نہیں ہوگی۔ حکومت کو اس معاملہ میں قانون سازی کا وقت مل گیا ہے۔

آرمی چیف مدت ملازمت کیس؛ مختصر فیصلہ آج سنادیں گے، چیف جسٹس
ویب ڈیسک جمعرات 28 نومبر 2019

1897793-bajwa-1574929755-223-640x480.jpg

سوال یہ بھی ہے اگرجنرل ریٹائرنہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، چیف جسٹس: فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت شروع کردی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور اور بیرسٹر فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوگئے۔

جنرل کیانی کی توسیع اورجنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات طلب؛

چیف جسٹس نے جنرل کیانی کی توسیع اورجنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات مانگ لیں اورریمارکس دیئے کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں ان دستاویزات میں کیا لکھا ہے، سوال یہ بھی ہے آپ نے کہا ہے جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، سوال یہ بھی ہے اگرجنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، اس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں، جائزہ لیں گے جنرل کیانی کی توسیع کن بنیادوں پرہوئی تھی، 15 منٹ تک جنرل کیانی کی توسیع کی دستاویزات پیش کردیں۔

جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے؛

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کردی گئی ہے جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی تعیناتی 243 (1) بی کے تحت کی گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا، اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے، سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکرکردیا گیا ہے۔

آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں؛

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں، عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی گئی، آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے، عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں ، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے۔

قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی؛

آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر مدت مقرر نہ کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب آپ نے سینے سے لگا کر رکھی ہے، آرمی رولز بھی کتاب پر لکھا ہے غیر متعلقہ بندہ نہ پڑھے۔

آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی سمری عدالت میں پیش؛

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا، کوئی دیکھتا نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے، کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے، اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے۔ عدالت میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی سمری عدالت میں پیش کی گئی جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا، یہ ہماراحق ہے کہ سوال پوچھیں۔ جسٹس منصورنے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھے ہونگے، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کوکیسے درست کریں۔

اگرزبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے؛

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مدت نوٹیفکیشن میں 3 سال لکھی گئی ہے، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو۔

اشفاق کیانی کی توسیع اور راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش؛

سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی توسیع اور جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا کہ جنرل کیانی کو توسیع کس نے دی تھی، جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے۔

عدالت عظمی کا نام سمری سے نکالیں؛

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سمری نوٹیفکیشن میں عدالت عظمی کا ذکر نہ کریں، سمری میں عدالت کو بھی بریکٹ میں ڈال دیا گیا تاہم عدالت عظمی کا سمری سے کوئی تعلق نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کا کام ہے ملکی دفاع پر توجہ دیں، یہ ان کے وقت کا ضیاع ہے کہ وہ آپ کی غلطیاں نکالیں، وہ خود رہنمائی کرنے پہنچ گئے، یہ سب تو باعث شرمندگی ہے۔

6 ماہ میں پارلیمنٹ سے قانون سازی؛

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ تو کہتے ہیں حکومت نے کوئی غلطی نہیں کی جب کہ 6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو کیا تقرری غیرقانونی ہوجائے گی، 6 ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرلیں، حکومت وقفے کے دوران نوٹیفکیشن اور سمری میں درستگی کرے، شام کو مختصر فیصلہ جاری کریں گے۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاحکم نامہ معطل کردیا تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ایکسٹینشن معطل نہیں ہوگی۔ حکومت کو اس معاملہ میں قانون سازی کا وقت مل گیا ہے۔

آرمی چیف مدت ملازمت کیس؛ مختصر فیصلہ آج سنادیں گے، چیف جسٹس
ویب ڈیسک جمعرات 28 نومبر 2019

1897793-bajwa-1574929755-223-640x480.jpg

سوال یہ بھی ہے اگرجنرل ریٹائرنہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، چیف جسٹس: فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت شروع کردی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور اور بیرسٹر فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوگئے۔

جنرل کیانی کی توسیع اورجنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات طلب؛

چیف جسٹس نے جنرل کیانی کی توسیع اورجنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات مانگ لیں اورریمارکس دیئے کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں ان دستاویزات میں کیا لکھا ہے، سوال یہ بھی ہے آپ نے کہا ہے جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، سوال یہ بھی ہے اگرجنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، اس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں، جائزہ لیں گے جنرل کیانی کی توسیع کن بنیادوں پرہوئی تھی، 15 منٹ تک جنرل کیانی کی توسیع کی دستاویزات پیش کردیں۔

جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے؛

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کردی گئی ہے جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی تعیناتی 243 (1) بی کے تحت کی گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا، اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے، سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکرکردیا گیا ہے۔

آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں؛

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں، عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی گئی، آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے، عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں ، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے۔

قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی؛

آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر مدت مقرر نہ کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب آپ نے سینے سے لگا کر رکھی ہے، آرمی رولز بھی کتاب پر لکھا ہے غیر متعلقہ بندہ نہ پڑھے۔

آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی سمری عدالت میں پیش؛

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا، کوئی دیکھتا نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے، کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے، اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے۔ عدالت میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی سمری عدالت میں پیش کی گئی جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا، یہ ہماراحق ہے کہ سوال پوچھیں۔ جسٹس منصورنے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھے ہونگے، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کوکیسے درست کریں۔

اگرزبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے؛

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مدت نوٹیفکیشن میں 3 سال لکھی گئی ہے، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو۔

اشفاق کیانی کی توسیع اور راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش؛

سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی توسیع اور جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا کہ جنرل کیانی کو توسیع کس نے دی تھی، جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے۔

عدالت عظمی کا نام سمری سے نکالیں؛

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سمری نوٹیفکیشن میں عدالت عظمی کا ذکر نہ کریں، سمری میں عدالت کو بھی بریکٹ میں ڈال دیا گیا تاہم عدالت عظمی کا سمری سے کوئی تعلق نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کا کام ہے ملکی دفاع پر توجہ دیں، یہ ان کے وقت کا ضیاع ہے کہ وہ آپ کی غلطیاں نکالیں، وہ خود رہنمائی کرنے پہنچ گئے، یہ سب تو باعث شرمندگی ہے۔

6 ماہ میں پارلیمنٹ سے قانون سازی؛

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ تو کہتے ہیں حکومت نے کوئی غلطی نہیں کی جب کہ 6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو کیا تقرری غیرقانونی ہوجائے گی، 6 ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرلیں، حکومت وقفے کے دوران نوٹیفکیشن اور سمری میں درستگی کرے، شام کو مختصر فیصلہ جاری کریں گے۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاحکم نامہ معطل کردیا تھا۔
عمدہ پیش رفت ہے۔ بھگو بھگو کر، جوتے رسید کیے گئے ہیں۔ :) چلیے جناب، کبھی کبھار تو ججز کوبھی موقع ملتا ہے۔ اس بہانے کھوسہ جی نے بھی دل کی بھڑاس نکال ہی لی۔ اب تصفیہ کی کوئی صورت برآمد ہوتی دکھائی دیتی ہے تاہم اگر یہ مشروط توسیع ہوئی تو سیاسی پارٹیاں اس کا خوب فائدہ اٹھائیں گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمدہ پیش رفت ہے۔ بھگو بھگو کر، جوتے رسید کیے گئے ہیں۔ :) چلیے جناب، کبھی کبھار تو ججز کوبھی موقع ملتا ہے۔ اس بہانے کھوسہ جی نے بھی دل کی بھڑاس نکال ہی لی۔ اب تصفیہ کی کوئی صورت برآمد ہوتی دکھائی دیتی ہے تاہم اگر یہ مشروط توسیع ہوئی تو سیاسی پارٹیاں اس کا خوب فائدہ اٹھائیں گی۔
جی ہاں۔ اپوزیشن جماعتوں کو موقع فراہم کیا گیا ہے کہ اب وہ آرمی چیف کو اگلے ۶ ماہ ذلیل کریں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
۶ ماہ کافی ہیں اس حوالہ سے قانون سازی کیلئے۔ جس کے بعد مدت ملازمت بڑھائی جا سکتی ہے۔
کیا قانون سازی سے مراد آئین میں طریقہ کار واضح کرنا ہے؟ اور یہ بغیر اپوزیشن کے ممکن نہیں ہے یعنی کچھ لو اور دو۔ کل سے میرے ذہن میں کچھ یہی خیال چل رہے ہیں۔ :)
 
Top