سو لفظوں کی کہانیاں

رباب واسطی

محفلین
آج “سو لفظوں کی کہانی “ کے نام سے اس سلسلے کا آغاز کررہے ہیں ۔ امید ہے دیگر محفلین بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔

1-ہیر رانجھا
محمد خلیل الرحمٰن
اسے فلم اچھی لگی۔ وارث شاہ نے کرداروں کو لازوال بنادیا۔ ادھر فلم بنانے والوں نے بھی کہانی کے ساتھ خوب انصاف کیا تھا۔ہیر کیا من موہنی مورت تھی۔ رانجھا بھی خوش شکل تھا، البتہ کیدو کا انتخاب تو لاجواب تھا۔شکل ہی سے منحوس لگتا تھا۔


گلی میں پہنچا تو وہاں کا منظر دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا۔ اس کی بہن اپنے چاہنے والے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی شرما شرما کر باتیں کر رہی تھی۔ اس نے گھر میں داخل ہوکر باورچی خانے سے کچھ مٹھی میں دبایا اور باہر کی جانب لپکا۔
مکافاتِ عمل
 
واہ بہترین
سوچ کی دورنگی
بحیثیت تماشائی ایک چیز ہمیں پسند ہوتی لیکن
غیرت اس وقت بیدار ہوتی جب ہاتھ ہمارے گریبان میں اور ہماری عزت اس تماشے کا حصہ بننے لگے ۔
 

ام اویس

محفلین
3۔ بیٹا
از نزہت وسیم​
فون کی گھنٹی بجی ، بات کرنے والا اس کا باپ تھا جس کی لرزتی ہوئی آواز میں شفقت کے ساتھ التجا جھلک رہی تھی ۔ اس کی خواہش تھی ۔ آج روزہ اس کے پاس کھولا جائے ۔ اچانک اسے یاد آیا آج اس کے بیٹے کا بھی روزہ تھا ۔ اس نے اپنے باپ سے معذرت کی ، کام کی زیادتی کا بہانہ بناتے اس کے لہجے میں رکھائی در آئی ۔
بازار سے سموسے ، فروٹ چاٹ اور دہی بھلے خرید کر گھر لوٹا ۔ بیٹے پر محبت بھری نگاہ ڈالی اور شفقت سے پوچھا “ روزہ کیسا گزرا “
بیٹے نے گیم سے نگاہ ہٹائے بغیر رکھائی سے کہا:
“ ٹھیک “
 

ام اویس

محفلین
4۔ اشارہ
از نزہت وسیم​

عید شاپنگ کے لیے شوہر کے ساتھ موٹرسائیکل پر جا رہی تھی۔

اچانک گاڑی والے پر نگاہ پڑی ، جو بند شیشے سے اسے اشارے کر رہا تھا۔

غصے سے اس کا رنگ سُرخ پڑ گیا۔ اڑتی قمیض پر ہاتھ رکھا۔

پیچھے نگاہ کی تو موٹر سائیکل سوار لڑکا اسے دیکھتے انگلی کو گول گول گھما رہا تھا۔

الجھن مزید بڑھ گئی۔

شوہرسے ٹہرنے کا کہا، جونہی موٹر سائیکل رُکی گلے میں کسے دوپٹے کے زور پر الٹ کر سڑک پر جاگری ۔

کھوپڑی کے تڑخنے کی آواز کانوں میں گونجی۔

اور اس کا دماغ انگلی کے گول اشارے کے ساتھ تیز تیز گھومنے لگا ۔
 
Top