سائنس کیا ہے؛ اور سائنس کیا نہیں ہے؟ (علیم احمد، مدیرِ اعلیٰ ماہنامہ گلوبل سائنس)

فاتح

لائبریرین
وہ خلیے کیوں ۔۔۔ کب ۔۔۔ اور کیسے ڈیڈ ہو جاتے ہیں ؟؟؟ کوئی بھی کام اپنے آپ تو نہیں ہوتا نا ۔۔۔۔؟؟؟سائنس کے اصولوں کے مطابق تو پھر ہر شخص کی موت ہی ایک ہی جتنی عمر میں ہونی چاہیے کہ ایک خاص عمرمیں آ کر وہ خلیے ڈیڈ ہو جانے سے انسان کی موت ہو جائے ۔۔۔ مگر مشاہدہ اس کے خلاف ہے ۔۔۔ سائنسی توجیح پیش کیجئے گا۔۔۔ جو آپ کی پیش کردہ سائنس کی تعریف کے مطابق ہو۔۔۔:)
پورا مراسلہ پڑھیں دوبارہ
دماغ کے خلیوں (نیورانز ) کا آکسیجن نہ ملنے پر ڈیڈ ہو جانا ہے جس کے بعد وہ خلیے آپس میں الیکٹریکل امپلسز نہیں بھیج سکتے
 

متلاشی

محفلین
اگر آپ عقل کے مادی وجود کی بات کر رہے ہیں تو دماغ وہ "مادہ" جس کے خلیوں کے درمیان یہ الیکٹریکل سگنلز بھیجے اور وصول کیے جارہے ہیں اور ان امپلسز کا نام عقل یا سوچ ہے لیکن یہ مکمل جواب نہیں ہے۔
عقل و شعور کی ماہیت پر ابھی غور کیا جا رہا ہے اور اسے سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سائنس اور مذہبی عقیدے میں یہی تو فرق ہے کہ سائنس اندھے اعتقادات کو مان کر نہیں بیٹھ جاتی کہ روح ہے جو اندر تھی اور اب باہر نکل گئی۔ سائنس غور کرنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کا نام ہے۔
میرے محترم کونسا مذہب سمجھنے اور غور کرنے سے روکتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تمام ادیانِ الٰہیہ انسان کو غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتے ہیں ۔۔۔۔ قرآن میں ہر جگہ نقلی (روایات) دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی دئیے گئے ہیں ۔۔۔ کبھی فرصت نکال کر قرآن کا مطالعہ فرما لیں ۔۔۔ آپ کے تمام اشکالات دور ہو جائیں گے ۔۔۔ !
دوسرا میں مزید عقل و شعور کے مادی وجود کے بارے میں بات نہیں کروں گا کیونکہ آپ خود تسلیم کر چکے سائنس ابھی اس کی ماہیت معلوم نہیں کر سکی ۔۔۔ لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ سائنس جس چیز کی ماہیت ابھی تک معلوم نہیں کر سکی ہے آپ کا اس چیز کے وجود پر یقین کس طرح ہے ؟؟؟؟ :) دوسرے لفظوں میں آپ کو ماننا پڑے گا کہ آج کل کے سارے سائنسدان بشمول آپ ابھی تک بے شعور اور بے عقل ہیں ۔۔۔( گستاخی معاف یہ میں نہیں خود آپ کی اپنی سائنس ثابت کر رہی ہے) اور بے عقل اور بے شعور بلا شبہ خالقِ حقیقی کو نہیں پہچان سکتا۔۔۔ :) اب میرے خیال سے اس بحث کا یہیں خاتمہ ہو جانا چاہیے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عقلِ سلیم عطا فرمائے
 

فاتح

لائبریرین
میں نے مراسلہ ایڈٹ کیا وہ بھی دوبارہ پڑھ لیں کہ ان خلیوں کو آکسیجن کیوں نہیں ملتی ؟؟؟؟
آپ یو ٹیوب پر میڈیکل سائنس کی کچھ ویڈیوز دیکھ لیں یا کچھ تفصیلی مضامین پڑھ لیں جن سے آپ کو یہ پتا چل سکے کہ آکسیجن کیوں نہیں ملتی خلیوں کو۔
کیا اس وقت ہوا سے آکسیجن ختم جاتی ۔۔۔؟ کس لاجک کے تحت ؟؟؟؟
یہ مزے دار ترین سوال تھا کہ ہو امیں ختم ہو جاتی ہے آکسیجن۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

فاتح

لائبریرین
میرے محترم کونسا مذہب سمجھنے اور غور کرنے سے روکتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تمام ادیانِ الٰہیہ انسان کو غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتے ہیں ۔۔۔۔ قرآن میں ہر جگہ نقلی (روایات) دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی دئیے گئے ہیں ۔۔۔ کبھی فرصت نکال کر قرآن کا مطالعہ فرما لیں ۔۔۔ آپ کے تمام اشکالات دور ہو جائیں گے ۔۔۔ !
دوسرا میں مزید عقل و شعور کے مادی وجود کے بارے میں بات نہیں کروں گا کیونکہ آپ خود تسلیم کر چکے سائنس ابھی اس کی ماہیت معلوم نہیں کر سکی ۔۔۔ لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ سائنس جس چیز کی ماہیت ابھی تک معلوم نہیں کر سکی ہے آپ کا اس چیز کے وجود پر یقین کس طرح ہے ؟؟؟؟ :) دوسرے لفظوں میں آپ کو ماننا پڑے گا کہ آج کل کے سارے سائنسدان بشمول آپ ابھی تک بے شعور اور بے عقل ہیں ۔۔۔( گستاخی معاف یہ میں نہیں خود آپ کی اپنی سائنس ثابت کر رہی ہے) اور بے عقل اور بے شعور بلا شبہ خالقِ حقیقی کو نہیں پہچان سکتا۔۔۔ :) اب میرے خیال سے اس بحث کا یہیں خاتمہ ہو جانا چاہیے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عقلِ سلیم عطا فرمائے
چلیے، بہت شکریہ آپ کی دعاؤں پر۔:)
 
متلاشی بھائی۔ سائنس موت کی جو تعریف بیان کرتی ہے، وہ بھی مشاہدے کی روشنی میں انتہائی نامکمل اور نامعقول ہے۔ اس میں پائے جانے والے اختلافات خود عیاں ہیں۔
میڈیکل سائنس یہ کہتی ہے کہ انسان کی جب کلینیکل ڈیتھ (Clinical death) واقع ہوتی ہے
کلینیکل ڈیتھ میڈیکل کی ایک اصطلاح ہے جو یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ
" انسانی جسم میں دورانِ خون اور سانس کے خاتمے کو کلینیکل ڈیتھ کہتے ہیں"۔
میڈیکل سائنس کے مطابق کلینیکل ڈیتھ کے بعد برین ڈیتھ (Brain death) ہوتی ہے ایک تحقیق کے مطابق اگر کلینیکل ڈیتھ کو 3 منٹ سے زیادہ گزر جائیں تو پھر انسانی دماغ کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی عام درجہ حرارت پر ممکن نہیں ہے، گو کہ انسانی دماغ کی مکمل موت کا کوئی مخصوص دورانیہ نہیں ہے کلینیکل ڈیتھ کے بعد 10 منٹ تک اگر دماغ کو آکسیجن نہ ملے تو دماغ کے CA1 ٹشوز کو نقصان پہنچتا ہے لیکن یہ مرتے نہیں اور اگر انہیں کسی طرح آکسیجن پہنچائی جائے تو ان ٹشوز کو کئی گھنٹے زندہ رکھا جا سکتا ہے۔

ایک دوسری تحقیق کے مطابق انسانی دماغ میں آکسیجن ختم ہونے کے 5 منٹ کے بعد دماغ کے ٹشوز مرنا شروع ہو جاتے ہیں اور 10 سے 15 منٹ کے دورانیہ میں دماغ مکمل مر جاتا ہے۔۔۔ لیکن ٹھہریے،:) یہاں ایک اور موڑ آ گیا ہے۔۔۔ سائنس کہتی ہے کہ دماغ کو مرنے سے لمبے عرصے تک بچایا جا سکتا ہے۔۔ جی ہاں۔

سائنس کہتی ہے کہ اگر ۔۔۔۔ مرنے والا جسم انتہائی کم درجہ حرارت میں موجود ہے تو ایک عمل وقوع پذیر ہو گا جسے نیورو پروٹیکشن (neuroprotection) کہتے ہیں۔ اس عمل کے زیرِ اثر میٹا بولزم (metabolism ) انتہائی حد تک کم ہو جائے گا اور دماغ عام درجہ حرارت کی نسبت لمبے عرصے تک زندہ رہ سکے گا۔

سائنس کی ان تھیوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوال پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب میڈیکل سائنس دینے سے قاصر ہے۔
1۔ جب سائنس کلینیکل ڈیتھ کی بجائے برین ڈیتھ پر یقین رکھتی ہے تو پھر برین ڈیتھ کے واقعہ ہونے سے پہلے پہلے ایسے مریض کو جو کہ دنیا کے جدید ترین ہسپتال میں دنیا کے قابل ترین ڈاکٹر کے زیر علاج ہونے اور دنیا کے جدید ترین آلاتِ علاج ہونے کے باوجود بچایا نہیں جا سکتا، کیوں؟
2۔ اگر انسان کے مرنے کی وجوہات مادی ہیں، روحانی نہیں، جیسا کہ سائنس کہتی ہے، تو پھر مادی موت کو روکنے کے لیے کوئی دوا، کوئی ویکسین، کوئی انجیکشن کیوں نہیں بنایا گیا؟
3۔ اگر یہ عذر پیش کیا جائے کہ کلینیکل ڈیتھ اور برین ڈیتھ میں دورانیہ بہت کم ہے تو سائنس ہی کی تحقیق کے مطابق نیورو پروٹیکشن کے ذریعے برین ڈیتھ کے دورانیے کو بڑھا کیوں نہیں لیتے ؟
4-
نیورو پروٹیکشن کے ذریعے برین ڈیتھ کے دورانیے کو بڑھا کر مرنے والے کے دل کا تبادلہ کر کے اُسے کلینیکل ڈیتھ کے بعد زندہ کیوں نہیں کر لیا جاتا؟
5- اگر یہ ساری تحقیقات قابلِ عمل ہیں تو آج تک کتنے لوگوں کی جانیں ان پر عمل کر کے بچائی گئی ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

ربیع م

محفلین
حضرت، ہمیں تو یہ معمہ حل کئے ایک عرصہ ہو گیا بشکریہ ریچرڈ ڈاکنز۔
””

رچرڈ ڈاکنز کی کتاب “The God Delusion” کا جائزہ



تحریر عاصم بخشی

مقبول عام سائنسی لٹریچر کے قارئین کے لئے مشہور ماہر حیاتیات رچرڈ ڈاکنز کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ سام ہیرس، ڈینیئل ڈینیٹ اور کرسٹوفر ہچنز کے ساتھ ان کا شمار جدید الحاد کے ’’چار شاہ سواروں‘‘ میں ہوتا ہے جن کی خاص وجہ شہرت ان کی شد ت پسند اور مادیت میں ڈوبی ہوئی مذہب دشمنی ہے۔ ڈاکنز ایک کٹر ڈاروینی مبلغ کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کی تما م مشہور تصنیفات مثال کے طور پر ’خود غرض جین (Selfish Gene)‘، ’مبسوط جینیاتی ترکیب (Extended Phenotype)‘ ، ’باغ عدن سے پھوٹتا دریا(River Out of Eden)‘ اور ’نابینا گھڑی ساز(The Blind Watchmaker)‘ وغیرہ حیاتیات میں ڈاروینی روایت کا تسلسل ہونے کے ساتھ ساتھ مذہب، اخلاقیات اور نظریہ ءتخلیقِ عالم کے خلاف ثانوی تبصروں کے طور پر بھی مانی جاتی ہیں۔ مگر ان کی کتاب ’خدائی مغالطہ(The God Delusion)‘ مذہب کے خلاف ایک کھلا اعلان ِ بغاوت ہے ۔ ڈاکنز کے بقول اس کتاب میں انہوں نے خدا کے مفروضے کوسائنسی بنیادوں پر پرکھا ہے اور ان کی کتاب عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے کم از کم چار مقدمات قائم کرتی ہے۔ اوّل یہ کہ ملحدین ایک پر اطمینان، اخلاقی اور متوازن زندگی گزار سکتے ہیں، دوم، قدرتی چناؤ وغیرہ جیسے سائنسی نظریات خدائی مفروضہ کی بہ نسبت کائناتی تعبیرات کے لئے زیادہ معتبر ہیں،سوم، بچوں کو ان کے والدین کے مذہب سے منسوب کرنا زیادتی ہے اور چہارم یہ کہ ملحدین کو معذرت خواہانہ رویہ کی بجائے اس پر افتخار ہونا چاہئے کیونکہ الحاد ایک آزاد اور صحت مند ذہن کی دلیل ہے۔ ذیل میں ڈاکنز کی کتاب پر تبصرہ پیش خدمت ہے۔

***
عمومی مذہبی خیال کے برعکس حقیقت ِمطلق ، خدا کی ہستی اور وحی کے متعلق بے اعتقادی اور تشکیک محض ایک جدید حادثہ نہیں ہے۔ جہاں تک ایک ہمہ وقت تخلیق میں مشغول ہستی ِ مطلق کے تصور کا سوال ہے سامی الہامی روایتوں کے برعکس مشرق میں ہندو مت، جین مت ، بدھ مت اور تاؤ مذہب وغیرہ کافی حد تک کونیاتی ندرت کے مظاہر ہیں مگر پھر بھی ان مذہبی روایتوں میں ایک عالمگیر آفاقی سچائی کا تصور تو بہرحال پوری آب و تاب کی ساتھ موجود ہے۔عہد عتیق کی کلاسیکی مغربی روایت میں ریاست کے قائم کردہ خدائی تصورات کو جھٹلانا بھی ایک طرح سے الحاد کا مترادف سمجھا جاتا تھا اورقدیم یونانی فلسفے میں پہلی بار یونانی ثقافت کے دیومالائی خداؤں پر سوال ااٹھانے کی ابتدا ہوئی۔ یہ فلاسفہ فی نفسہٖ الحاد کے قائل تو نہ تھے مگر انہوں نے کائنات کی تعبیر اساطیری کہانیوں کی بجائے فطری قوانین سے کرنے کی داغ بیل ڈالی جس کے نتیجے میں جوہریت ، سوفسطائیت اور ایپی قوریت جیسی لاتعداد روایات نے اپنی اپنی کونیاتی اور معادیاتی تعبیرات پیش کیں۔ عہد وسطیٰ تک پہنچتے ہوئے عقلیت پسند روایت ایک مکمل تشکیک پسند اور الحادی جہت کو فرو غ دے چکی تھی۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس دور میں یورپی معاشروں کے برعکس مسلم معاشروں میں ابن الراوندی ، محمد ابن زکریا الرازی اورابو العلاء المعری وغیرہ جیسے ملحدین اور متشککین کے نام زیادہ مشہور ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید اس زمانے میں مسلم معاشروں اور ریاستوں کاانفراد ی عقیدے کی حد تک زیادہ متحمل اور روادار ہونا ہے۔ اس زمانے میں خدا کے وجود کے متعلق کئی لاادری سوالات اٹھائے گئے، مگر یہ کاوشیں گو کئی ایسے مفکرین کے قلم سے نکلیں جو اصل میں سائنسدان تھے مگر پھربھی اتنی جرأت مندنہ تھیں کہ انہیں وجودِ خدا کا یکسر انکار کہا جا سکتا۔
عصرِ جدیدمیں مغربی فلسفیانہ روایت نے ، جس کی جڑیں سولہویں صدی کی روشن خیالی کی تحریکوں بالخصوص کانٹ اور ہیوم کے فلسفے میں ہیں، سائنسی جدوجہد کو وہ بنیادیں فراہم کیں جنہوں نےبلاواسطہ طور پر عمومی لاادریت اور بلاواسطہ طور پر الحادکو فروغ دیا ۔ ان رجحانات کے بانیوں میں بنیادی طور پر اہلِ منطق، طبعی علوم کے ماہرین اور ماہرین رکازیات وغیرہ شامل تھے سائنس کو جتنا مقبول ِعام ان کی تحریروں نے بنایا، ویسا سائنسی ثقافت کی پوری تاریخ میں کسی اور نے نہ کیا تھا یہی نہیں بلکہ انہوں نے سائنسی دائرہء کار کو مابعدالطبیعات، اخلاقیات اور الٰہیات جیسے خالص فلسفیانہ میدانوں تک پھیلا دیا۔ مگر اس پوری روایت میں مذہب کو اس قدر معاندانہ طور پر عقل سے متصادم نہیں دکھایا گیا جتنا کہ ہمیں رچرڈ ڈاکنز کی کتاب ’’خدائی مغالطہ‘‘[1](God Delusion) میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکنز ایک شدید سائنسی فطرت پرستی کے پس منظر میں یہ قضیہ قائم کرتے ہیں کہ الحاد انسانی ارتقاء کا قدرتی نتیجہ ہے۔ہر قسم کا مذہبی عقیدہ لازما عقل و استدلال سے ناموافق ہوتاہے کیونکہ اس کا تجرباتی اثبات ناممکن ہے۔ڈاکنز کی تعبیر کے مطابق اس دنیا میں تمام بدنما مظاہر کی جڑ وں میں کہیں نہ کہیں مذہب ضرور موجود ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ انسانی شعور میں موجود تصورِ خدا ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عالمِ کل اور قادرِ مطلق ہستی کو ماننے کا محض ایک فطری محرک ہے ، یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو ارتقائی عمل میں ’’کسی مفید شے‘‘ کا ماحصل ہوسکتی ہے یا پھر سادہ انداز میں دیکھا جائے تو عظیم الشان ارتقائی عمل میں ایک چھوٹی سی غلطی کا نتیجہ ہے۔ اپنے چند پیش رو مفکرین مثلا تھامس ہکسلے، برٹرنڈ رسل اور اسٹیفن ۔جے ۔ گولڈ کے برعکس جو الحاد کی بجائے کی لاادریت سے منسوب ہونا پسند کرتے ہیں، رچرڈ ڈاکنز یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ کوئی تجربی ثبوت نہ رکھنے کے باعث انکارِ خدا ایک بلا جواز مابعدالطبیعاتی دعویٰ ہے اور اس پر اصرار ِمحض ایک کٹر راسخ الاعتقادی ۔ لہٰذا مذہب اور سائنس دو بالکل مختلف میدان ہیں جن کے اپنے اصول و ضوابط اور باہم غیر مربوط دائرہ کار ہیں[2]۔ نتیجے کے طور پر خدا کی ہستی سے متعلق کوئی بھی دعویٰ یا سوال سائنسی تصور کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ سوال کسی بھی طرح انسانی زندگی اور کائنات کے متعلق کونیاتی استفسارات کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔

بہت سے مفکرین کی جانب سے ڈاکنز کے طریقہ کار کو بجا طور پر ’’متشدد دہریت‘‘ کہا گیا ہے کیوں کہ وہ مذہب کے تمام عملی مظاہر کو ڈھا دینے کی حمایت کرتے ہیں اور ایسے ہر ضابطہ کی نفی کرتےہیں جو مذہب کو عملی طور ممکن بنائے اور اس کی انفرادی یا اجتماعی بنیادوں کو مضبوط کرے۔ جیسا کہ کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب ’’ خدا کامقدمہ ‘‘[3] میں جامعیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں، ڈاکنز ایک مخصوص تخفیفی میلان کی ترجمانی کرتے ہیں جو غیر معمولی طور پر مذہبی شدت پسندوں سے متشابہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کو ’’بدی کا نمونہ ‘‘ سمجھتے ہیں۔یہ دونوں فکری رجحانات غیر ضروری تسہیل اور تعمیم کی بناء پر اپنی اپنی جگہ کچھ ناگزیر قضایا قائم کرتے ہیں جن سے اخذ کردہ نتائج آخر کار ایک دوسرے کے بدترین اور بدشکل مظاہر کو نمایا ں کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ امر کسی حیرانی کا باعث نہیں کہ مصنف کرسٹوفر ہچنز اور ابن وراق وغیرہ کی تنقیدی تحریروں[4] کے اطلاق سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مذہب کے متعلق ایک روادار، متحمل اور مبنی براحترام زاویہ ءنگاہ بھی شدیدقابل مذمت ہے کیوں کہ مذہب کی کوئی بھی شکل مذہبی شدت پسندی کا جواز فراہم کرتی ہے۔ اس طرح کے بودےمنطقی تجزیات کی سطحیت واضح ہے اور یقینا کسی مستعد علمی تنقید کی متقاضی نہیں ، مزید یہ کہ ان دونوںمتشدد رجحانات کے درمیان مماثلت دریافت کرنا نہایت سہل ہے۔

خدا کا وہ تصور جو ڈاکنز اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لئے قائم کرتے ہیں نہایت سوقیانہ تجسیم پر مبنی ہے۔ تحریر میں جا بجا قاری کو یہ ماننے پر مجبور کیا جا تا ہے کہ ہر خدا پرست، اس سے قطع نظر کے وہ کس عقیدے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہے، کسی ایسی مافوق الفطرت ہستی کامکانی تصوررکھتا ہے جسے ڈاکنز اپنے مخصوص ہجویہ انداز میں ’’فلکیاتی چائے دانی[5]‘‘ یا ’’اڑنے والے سپیگٹی عفریت[6]‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ڈاکنز کی فطرت پرست استغراقی کیفیت کے لئے کوئی ایسا تصور جس میں ایک عالمگیر رمزیت کے استعمال سے کسی ماورائے زمان و مکان ناقابلِ بیان ہستی کی طرف اشارہ و کنایہ ہو بالکل ناممکن اور عجیب ہے۔ لہٰذا مذہبی عقیدہ ، جیسا کہ مصنف گلا پھاڑ کر وکالت کرتے ہیں ، ایک نادانی اور سادہ لوحی پرمبنی ہے جس کی کسی ذہین ، غیر متعصب اور معقول آدمی سے ہر گز توقع نہیں کی جا سکتی۔ مابعدالطبیعاتی مسائل و مضامین کی جانب اپنے تشکیک آمیز رویے اور سہل پسند ی کے باعث ڈاکنز شایدجان بوجھ کر مذہبی صداقت میں پوشیدہ اساسی یا جوہری نامعلومیت کو نظر انداز کرتے ہیں جو اس صداقت کی ملکیت کےکسی بھی انفرادی دعوے کا ایک جزو لاینفک ہے۔ وہ یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے کہ کچھ مذہبی انتہا پسندوں کے علاوہ کوئی خدا پرست صراحت کے ساتھ یہ دعویٰ ہرگز نہیں کرتا کہ وہ حقیقت ِ مطلق کی کوئی ہمہ گیر قابلِ بیان شبیہ رکھتا ہے ۔وحی خود بھی لیس کمثلہ شئی جیسے کے ذریعے اس قسم کے کسی بھی دعوے کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کر چکی ہے اورحقیقت ِمطلق اور معاد کے باب میں جو کچھ ہمارے پاس ہے اب محض رمز وکنایہ کے اسلوب میں ہے جس کی توجیہ کرنے میں ہر خدا پرست اپنی انفرادی حیثیت میں آزاد ہے۔

ڈاکنز ،شاید اپنے غیر فلسفیانہ میلانات کے باعث، بظاہر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک خدا پرست کے لئے اسی تحیر میں ایک مسرت ، ایک ہیبت و استعجاب کی ملی جلی نفسیاتی کیفیت پوشیدہ ہے جو کائنات میں اس کے اپنے مبہم ہونے کے عاجزانہ احساس کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ مگر اتنا تو ضرور ڈاکنز بھی تسلیم کریں گے کہ سائنس اگرچہ ہمارے ارد گرد پھیلی پیچیدگی کو سلجھانے کی سعی کرتی ہے اس کے باوجود وہ مذہب کے ساتھ اس تحیر میں شریک ہے کیونکہ بالآخر اسے بھی ایک تجرباتی تسلسل کے ساتھ ساتھ ایک عملی اعتقاد کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے۔ اس مخصوص فکری پسِ منظر میں ایک احتمالی نمونےکی بنیاد پر نام نہاد’’ مفروضہء خدا‘‘ کا رد غیر معمولی طور پر ناقابل یقین ہے۔ جب تک ’’احتمال ‘‘ کو ’’صداقت‘‘ یا ’’حق‘‘ کے مترادف تصور نہ کیا جائے ڈاکنز کااخذ کردہ نتیجہ ’’خدا تقریبا یقینی طور پر موجود نہیں‘‘ فلسفیانہ نکتہ نگاہ سے کوئی علمی قضیہ نہیں مانا جا سکتا ۔ یہ ایک لطیف مگر اہم نکتہ ہے جسے کارل پاپر نے اپنی تصنیف ’’سائنسی دریافت کی منطق[7]‘‘ میں اس طرح بیان کیا ہے:[8]

’’۔۔۔ہمیں سائنس کو ایک’’مجموعہء علم‘‘ کی بجائے ’’ مفروضوں کے ایک نظام‘‘ کے طور پر دیکھنا چاہئے، یعنی اندازوں یا توقعات کا ایک نظام جو اصولی طور پر تو قابل دفاع نہیں مگر ہم اسے اس وقت تک استعمال کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ تجربے کی کسوٹی پر پورا اترتا رہے اور اس بارے میں ہم کبھی یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ ہمیں علم ہے کہ یہ ’’سچ‘‘یا ’’کم و بیش یقینی ‘‘ یا پھر’’احتمالی‘‘ ہے۔‘‘

اس سخت ارتقائی فکری قالب کی بدولت ڈاکنز کے لئےاپنے نظریہ اخلاق کوکسی نہ کسی قسم کی ڈاروینی بنیادیں فراہم کرنا ناگزیر تھا ۔انسانی عقل کو بالآخر حیاتیاتی ارتقاء کا نتیجہ قرار دینا شاید کتاب کا سب سے بودا اصرار ہے جس کی بنیاد پرشاید یہ دعویٰ کرنا مقصود ہے کہ ہمارے اجداد عقلی طور پر حقیقتِ مطلق کےمعروضی فہم کی نسبتا کم صلاحیت رکھتے تھے۔یہ کم و بیش وہی بات ہے جس کی طرف اقبال اپنے دوسرے خطبے میں مذہبی تجربے کی ہیئت کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کرتے ہیں : کوئی بھی ایسا نقطہء نگاہ جس کی رو سے عقل ارتقاء کا ماحصل ٹھہرے ، سائنس اور اس کے اپنے ہی معروضی اصول ِ تحقیق کے مابین تعارض پیدا کر دے گی۔ اس تعارض کے ایک مناسب بیان کے لئے وہ ویلڈن کار کا حوالہ دیتے ہیں:[9]

’’اگر عقل ارتقاء ہی کی پیداوار ہے تو زندگی کی نوعیت اور اس کے آغاز کے بارے میں تمام میکانکی تصور لغو ٹھہرتا ہے۔ لہٰذا وہ اصول جسے سائنس نے اختیار کیا اس پر یقینا نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ ہم اس سلسلے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خود متناقض بالذات ہے۔ عقل جسے ادراک ِ حقیقت کا رویہ کہا جاتا ہے کس طرح بجائے خود کسی ایسی چیز کا ارتقاء ہو سکتی ہے جو اگر موجود ہے تو اس طریقِ ادراک یعنی عقل کی ایک تجرید کی حیثیت سے۔ اگر عقل زندگی کا ارتقاء ہے تو زندگی کا یہ تصور کہ اس سے عقل کا ارتقاء ادراکِ حقیقت کے ایک مخصوص طریق کی صورت میں ہو ا ہے لازما کسی مجرد میکانکی حرکت کی نسبت زیادہ محسوس فعالیت کا تصور ہونا چاہیے تھا جواپنے محتویات کے ادراک کے تجزیےکے ذریعے عقل کو اپنے آپ ظاہر کر سکتی ہے۔اور پھر مزید اگر عقل زندگی کے ارتقاء کا نتیجہ ہے تو یہ مطلق نہیں بلکہ زندگی کی سرگرمی کے حوالے سے اضافی ہے۔اب اس صورت میں سائنس ادراک کے موضوعی پہلو کو خارج کر کے ایک مطلق معروضی تصور پر کس طرح اپنی عمارت استوار کر سکتی ہے؟ ایسے میں ظاہر ہے کہ علومِ حیات کے لئے لازم ہے کہ وہ سائنسی اصولوں پر دوبارہ غور کرے۔‘‘[10]

ڈاکنز اپنی کتاب ایک ایسی معاشرتی مہم کے طور پر متعارف کرواتے ہیں جس کا مقصد مختلف مفروضوں کے متعلق عوامی شعور کو اجاگر کرناہے مثال کے طور پر الحاد کا لاادریت کے مقابلے میں زیادہ معقول ہونا، مذہب کا ہر برائی کی جڑ ہونا، مذہبی تعلیم کا بچوں سے زیادتی کے مترادف ہونا، مذہب اور اخلاقیات کا مکمل طور پر باہم غیر متعلق ہونا اور الحاد کا ایک ایسامعروضی نتیجہ ہونا جس کا اخذ کرنا ایک فرد کے لئے باعثِ شرم نہ ہو اور صرف اسی کا ایک ایسا واحد معقول عقیدہ ہونا جو کوئی بھی انسان فخر کے ساتھ رکھ سکے۔ اگر انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان تمام مقاصد میں سے چند تو وہ ضرور جزوی طور پر حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، بالخصوص ایک خاص قسم کے تشکیک پسند اور سادہ لوح جدید ذہن کو مذہب ترسی کی طرف مائل کرنا اور ساتھ ہی ساتھ ملحدین کوایسی مضبوط مگر بازاری مناظرانہ بنیادیں فراہم کرنا جن سے ان کا فکری تفاخر قائم ہو سکے۔مگرایک ایسے خدا پرست قاری کے لئے جو مذہب اور سائنس کی انفرادی اقالیم سے یکساں درجے میں تحیرزدہ ہے اور پل باندھ کر فاصلے کم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے شاید کتاب کا واحدمفید مگر مخفی پہلو وہ سوالات و اعتراضات ہیں جو اس کو اپنی داخلی اور پوشیدہ ترین ایقانی کیفیات کو جانچنے میں مدد دیتے ہیں۔ برٹرنڈ رسل سے جب ایک بار ایسے ثبوت کے بارے میں دریافت کیا گیا جو ان کو خدا کی ہستی کے بارے میں قائل کر دے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر آسمان سےآنے والی ایک غیبی صدا انہیں اگلے چند گھنٹوں میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کر دے اور وہ تمام واقعات بعینہ اسی طرح وقوع پذیر بھی ہو جائیں تو وہ شاید خدا کی موجودگی کے امکا ن کے بارے میں غور کریں۔ مجھے شک ہے کہ اتنا صریح معجزانہ تجربی کشف بھی شاید ڈاکنز کو ’’مفروضہ ء خدا‘‘ کی حقانیت کی جانب فکر پر آمادہ نہ کر سکے۔ ان کی اپنی ہی تحریر سے مستعار یہ طنزیہ جگت شاید ان کی باغیانہ فکر کی صحیح ترجمانی کرتی ہے کہ وہ خدا کے نہ ہونے کومحض اعتقادی درجہ میں مانتے ہی نہیں بلکہ جانتے ہیں[11]۔

حواشی:
1. Richard Dawkins, The God Delusion, Mariner Books, 2006.
۲. یہ اسٹیفن ۔ جے ۔ گولڈ کی اختراع کردہ اصطلاح non-overlapping magisteria کی طرف اشارہ ہے ۔

3. Karen Armstrong, The Case for God, Anchor Reprint Edition, 2010.

4. Christopher Hitchens, The Portable Atheist: Essential Readings for the Non-Believer, [Editor] Perseus Publishing; Christopher Hitchens, God is not Great: The Case Against Religion, Atlantic Books, 2007; Ibn Warraq, Why I Am Not a Muslim, Prometheus Books, 1995.

5. Cosmic Teapot.

6. Flying Spaghetti Monster.

7. Karl Popper, The Logic of Scientific Discovery, Routledge Classics, 2nd Edition, 2002.

8. ibid

۹. ملاحظہ ہوں تجدید فکریاتِ اسلام کے حواشی۔

۱۰. علامہ محمد اقبال، تجدید فکریاتِ اسلام ، ترجمہ ڈاکٹر وحید عشرت ، اقبال اکادمی پاکستان(۲۰۰۲)

۱۱. یہ کارل یونگ کے ایک انٹرویو میں دیئے گئے جواب کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
 

arifkarim

معطل
میں کہتا ہوں، کہ ڈائنو سارز ایک فرضی مخلوق ہے جس کا سائنس نے صرف تخیل پیش کیا ہے، اور صرف قیاس پر چل رہی ہے کہ یہ گوشت خور تھا، یہ گھاس چرنے والا تھا۔اُسے دیکھا کسی نے نہیں۔ یعنی سائنس ڈائنوسارز کے معاملے میں مشاہدے سے محروم ہے ۔ لہذا یہاں آپ کی سائنس کی تعریف غلط ثابت ہوتی ہے۔
یہ قیاس ان ڈھانچوں کے دانتوں پر تحقیق کر کے حاصل کیا گیا۔ گھاس چرنے والے جانوروں کے دانت نکیلے نہیں ہوتے۔ اسی طرح پرندوں کی جسامت زمین پر دوڑنے والے جانوروں سے مختلف ہوتی ہے۔یوں انکی مکمل جسامت بیشک قیاس ہو، مگر انکی دنیا کے ماضی میں موجودگی ناقابل تردید۔ کسی مذہبی کتب میں کسی ڈائنوسار نامی مخلوق کا ذکر خیر موجود نہیں۔

یعنی آپ نے ڈھکے چُھپے الفاظ میں اقرار کر ہی لیا کہ سائنس مشاہدے کی بجائے قیاس پر چلتی ہے۔
قیاس صرف ڈائنو سار کی جسامت کالگایا ہے۔ انکی ماضی میں موجودگی کا نہیں۔

میرا سوال یہ نہیں کہ بگ بینگ کا مشاہدہ اب کیا جاسکتا ہے۔ پھر تو وہی ڈائنوسارز والا قیاس وارد ہو جائے گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب بگ بینگ وقوع پذیر ہوا اس وقت اس کا مشاہدہ کرنے والا کون تھا؟ اگر کوئی نہیں تھا، تو پھر آپ اس دعوے سے دست بردار ہو جائے کہ سائنس کی ہر تھیوری مشاہدے پر ہوتی ہے۔ نہیں تو وہ شاہد پیش کریں جس نے بگ بینگ کو وقوع پذیر ہوتے دیکھا یا یہ اقرار کر لیں کہ ڈائنوسارز کی طرح بگ بینگ پر بھی سائنس کا قیاس ہی ہے مشاہدہ نہیں۔
بگ بینگ کا مشاہدہ کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ البتہ اسکی باقیات آج بھی کائنات میں موجود ہیں۔ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ بگ بینگ کیسا تھا البتہ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ بگ بینگ کبھی نہیں ہوا۔

جدید سائنس تو بگ بینگ ہی کو کائنات کا ارتقاء قرار دیتی ہے ۔۔۔ تو میرا یہ سوال برقرار ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟؟؟؟ اگر بگ بینگ ہی ہے ارتقا ہے تو اس کا مطلب بگ بینگ کو ہی خدا یا خالقِ کائنات مانا جائے ؟؟؟؟
جب آپ خدا کے مفروضے کو ماننے پر تلے ہی ہوئے ہیں تو کسی کو بھی خدا بنا لیں۔اس چیز کی فکر کیوں کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا کہ وقت کی ڈائی مینشن خود بگ بینگ کے بعد وجود میں آئی۔

آپ مسلسل ایک خدا کو ثابت کرنے کے لیے کیوں دیگر اشیا کے ثبوت مانگ یا دے رہے ہیں؟
بالفرض یہ ثابت ہو جائے کہ اردو محفل کا کوئی وجود نہیں یا اردو محفل کے وجود کو ثابت نہیں کیا جا سکتا تو کیا یہ بات کسی خدا کی موجودگی کا ثبوت قرار دے دی جائے گی؟
یہ انکا مذہبی اور دینی فریضہ ہے کہ سب کو ایک خدا پر قائل کیا جائے۔ انکو بھی جو اسکے انکاری ہیں۔

ہاہا ہا سائنس نے یہ بات آج ثابت کی قرآن 14 سو سال پہلے یہ بات کہہ چکا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔۔۔ علامہ کا شعر اسی کی تفسیر ہے
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں
آج کے سائنس دانوں سے بڑا سائنس دان تو اقبال تھا پھر۔۔۔۔۔
قرآن کوئی سائنسی کتاب نہیں۔ اسے سائنس سمجھ کر مت پڑھیں۔ یہ دینی و مذہبی کتاب ہے۔

سائنس کا روح اور شعور کی مادی اور منطقی حیثیت ثابت کرنے سے قاصر ہونا، اس بات کا ثبوت ہے کہ کائنات میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا سائنس احاطہ نہیں کر سکتی۔ سائنس ان کے سامنے بے بس ہے۔ یہ دلیل ہے ان لوگوں کے رد میں جو سائنس کو ہی ہر چیز کے وجود کا اصل سمجھتے ہیں اور خدا کا انکار کرتے ہیں۔
سائنس کے مطابق شعور و ذہن دماغ کی پیداوار ہے۔ آپ کسی انسان کے جسم سے دماغ الگ کر دیں اور پھر دیکھیں کہ اسکا شعور کہاں جاتا ہے۔

آپ نے پھر میری اس بات کا جواب نہیں دیا کہ آپ کے پاس صرف یہ مفروضہ ہے کہ سائنسی آنے والے وقتوں میں ترقی کر کے ان باتوں کو تلاش لے گی جو ابھی تک نہاں ہیں ۔۔۔ تو آپ اس کو صرف مفروضے کے طور پر لیں ۔۔۔ اس پر ایمان تو نہ رکھیں ۔۔۔۔
یہ مفروضہ نہیں حقیقت ہے۔ سائنسی ترقی تحقیق کی محتاج ہے جو آگے سے وقت کامحتاج ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا ویسے ویسے اس فیلڈ میں سائنس ترقی کرتی چلے جائےگی۔

اور مفروضہ بھی ایسا کہ جس کا کچھ علم نہیں، ابھی غلط ہو جائے یا تھوڑی دیر بعد۔ ایسے میں ان لایعنی مفروضوں پر یقین کر کے خدا کے خالق و مالک ہونے کا انکار کرنا عقلِ سلیم کو کہاں زیب دیتا ہے۔
سائنس ایسے من گھڑت مفروضوں کی بنیاد پر نہیں کھڑی جو آئے دن غلط ثابت ہو جائیں۔ سائنس خدا کی انکاری نہیں بلکہ خدا کے وجود کا منطقی و عقلی اثبوت مانگتی ہے۔ آپ وہ فراہم کر دیں اور نوبل انعام حاصل کر لیں۔

تو کیا وہ ڈائی مینشن خالق ہے ۔۔۔ میرا سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ زمان و مکاں اور کائنات کا خالق کون ہے ؟؟؟ مجھے صرف اس بات کو جواب چاہیے ۔۔۔
اور جب آپ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہر چیز کا کوئی نا کوئی خالق ہے تو پھر بگ بینگ کیوں وقوع پذیر ہوا اس کے محرکات کیا تھے؟؟؟ بگ بینگ سے پہلے اگر چہ بقول آپ کے زمان و مکان کا تصور نہیں ۔۔۔ لیکن وہ سیارہ کہاں سے آ گیا جو ٹوٹا اور سارا بگ بینگ کا عمل وجود میں آیا ۔۔۔؟؟؟اس سیارے کا خالق کون تھا ؟؟؟؟
آپ کو کس حکیم نے کہا کہ بگ بینگ کسی سیارے کے ٹوٹنے کا نتیجہ ہے؟ باقی خالق کا مفروضہ آپ کا گھڑا ہوا ہے جسکی آپ کو تلاش ہے۔ اسے ڈھونڈتے رہیے۔
سائنس خالق کی تلاش مفروضوں کی بنیاد پر نہیں کرتی۔ بلکہ اس کائنات کے رازوں کو عقل، تجربات، مشاہدات کی کسوٹی پر رکھتےہوئے نتائج اخذ کرتی ہے۔

آپ الفاظ کے داؤ پیچ نہ کھیلیں ۔۔۔ میں نے شعور کے مادی وجود کی بات کی ہے ۔۔۔ دماغ مادی وجود رکھتا ہے مگر ہم جس شخص کو پاگل یہ بے شعور کہتے ہیں کیا اس میں دماغ نہیں ہوتا ؟؟؟؟؟؟
آپ نے شعور کا مادی وجود ثابت کرنا ہے ؟؟؟
پاگل کا دماغ بھی ہوتا جو اسکے جسم کو زندہ رکھتا ہے۔ البتہ اسکا شعور باقی انسانوں کی طرح کام نہیں کرتا۔پاگل پن ایک دماغی بیماری ہے۔

تو کیا آپ انسانی وجود کے اندر روح اور عقل و شعور کے وجود کے انکاری ہیں ؟؟؟؟؟؟
سائنس روح کی انکاری نہیں، اسکے وجود کو منطقی و عقلی طور پر ثابت کرنا چاہتی ہے۔ آپکے پاس یہ ہیں تو سائنسدانوں کو بتا کر نوبیل انعام جیت لیں۔

انسانی جسم کے اندر گردے ، پھیپڑے وغیرہ کا انکار نہیں کرتا میں ۔۔۔ ان کا مادی وجود ہے ۔۔۔
تو روح کا مادی وجود کہاں ہے؟

آپ میرے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے مجھ سے لا یعنی قسم کے سوال کرنے لگے ہیں ۔۔۔۔
جی نہیں، یہ آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ لایعنی روح کدھر ہے؟

اب اسی طرح میں نے آپ سے انسان میں روح اور عقل و شعور کے مادی وجود کا عقلی و سائنٹفک ثبوت مانگا تھا۔۔۔ عقلی ثبوت تو ہمیں مل سکتا ہے لیکن سائنسی ثبوت ندارد۔۔۔۔۔!
کیا دماغ میں شعور کا ہونا سائنسی اثبوت نہیں؟

متلاشی پیارے بھائی۔ بات دراصل یہ ہے کہ ابھی تک روح کی تعریف آکسفورڈ یونیورسٹی میں نہیں آئی۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کی جانب سے روح یعنی Soul کی تعریف:
The spiritual or immaterial part of a human being or animal, regarded as immortal.
http://www.oxforddictionaries.com/definition/english/soul
یعنی کسی بھی مادی جسم کا روحانی جسم روح کہلاتا ہے۔ آپ روحانی جسم کو عقلی اور منطقی طور پر ثابت کر دیں۔ نوبیل انعام آپ کا ہوا۔

میں نے کب کہا کہ سائنس روح کو مانتی ہے ؟؟؟؟ میں تو یہی کہہ رہا ہوں کہ سائنس کے پاس روح کا کوئی ثبوت نہیں ۔۔۔ لیکن یہ تو ایک مسلمہ حقیقت کہ انسان کے اندر کوئی نہ کوئی چیز ایسی موجود ہوتی ہے
جی نہیں، یہ کوئی مسلمہ حقیقت نہیں۔ دنیا میں کروڑوں انسان کسی روح نامی شے کو تسلیم نہیں کرتے۔

وہ خلیے کیوں ۔۔۔ کب ۔۔۔ اور کیسے ڈیڈ ہو جاتے ہیں ؟؟؟ کوئی بھی کام اپنے آپ تو نہیں ہوتا نا ۔۔۔۔؟؟؟سائنس کے اصولوں کے مطابق تو پھر ہر شخص کی موت ہی ایک ہی جتنی عمر میں ہونی چاہیے کہ ایک خاص عمرمیں آ کر وہ خلیے ڈیڈ ہو جانے سے انسان کی موت ہو جائے ۔۔۔
جی اس خاص عمر کو بڑھاپا یا ضعیف عمری کہا جاتا ہے۔

قرآن میں ہر جگہ نقلی (روایات) دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی دئیے گئے ہیں ۔۔۔ کبھی فرصت نکال کر قرآن کا مطالعہ فرما لیں ۔۔۔ آپ کے تمام اشکالات دور ہو جائیں گے ۔۔۔ !
قرآن کے عقلی دلائل کہیں سے بھی منطقی نہیں ہیں۔ صرف ایمان والے ہی انکو عقیدت کیساتھ منطقی کہہ سکتے ہیں۔ غیرمسلم نہیں۔

متلاشی بھائی۔ سائنس موت کی جو تعریف بیان کرتی ہے، وہ بھی مشاہدے کی روشنی میں انتہائی نامکمل اور نامعقول ہے۔ اس میں پائے جانے والے اختلافات خود عیاں ہیں۔
میڈیکل سائنس یہ کہتی ہے کہ انسان کی جب کلینیکل ڈیتھ (Clinical death) واقع ہوتی ہے
کلینیکل ڈیتھ میڈیکل کی ایک اصطلاح ہے جو یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ

" انسانی جسم میں دورانِ خون اور سانس کے خاتمے کو کلینیکل ڈیتھ کہتے ہیں"۔
میڈیکل سائنس کے مطابق کلینیکل ڈیتھ کے بعد برین ڈیتھ (Brain death) ہوتی ہے
کومے کا شکار افراد شعوری لحاظ سے برین ڈیتھ ہوتے ہیں البتہ کلینیل طور پر زندہ۔ اسی طرح بغیر دماغ کے انسان کا جسم تو زندہ رہ سکتا ہے پر شعور نہیں۔

ڈاکنز اپنی کتاب ایک ایسی معاشرتی مہم کے طور پر متعارف کرواتے ہیں جس کا مقصد مختلف مفروضوں کے متعلق عوامی شعور کو اجاگر کرناہے مثال کے طور پر الحاد کا لاادریت کے مقابلے میں زیادہ معقول ہونا، مذہب کا ہر برائی کی جڑ ہونا، مذہبی تعلیم کا بچوں سے زیادتی کے مترادف ہونا، مذہب اور اخلاقیات کا مکمل طور پر باہم غیر متعلق ہونا اور الحاد کا ایک ایسامعروضی نتیجہ ہونا جس کا اخذ کرنا ایک فرد کے لئے باعثِ شرم نہ ہو اور صرف اسی کا ایک ایسا واحد معقول عقیدہ ہونا جو کوئی بھی انسان فخر کے ساتھ رکھ سکے۔
کسی کتاب سے متعلق اتنے من گھڑت جھوٹ میں نے آج تک نہ کبھی دیکھے نہ سنے۔ رچرڈ ڈاکنز ایک ملحد ضرور ہے پر وہ مذہبی جنونیوں کی طرح مفروضے نہیں گھڑتا۔ وہ خداپر ایمان کو دیوانگی یا وسوسہ کہتا ہے جب تک اسکا کوئی منطقی و معقول اثبوت نہ فراہم کر دیا جائے۔ اسی لئے آپ مذہبی عقیدت مندوں کو اوپر نوبل انعام کی آفر کی تھی کہ خدا کا وجود سائنس کی رو سے ثابت کر دیں اور یہ انعام حاصل کر لیں۔ اس سے تمام ملحدین بھی بھلا ہوگا اور آپ حضرات کو جنت میں اعلیٰ مقام بھی حاصل ہو جائے گا۔
 

متلاشی

محفلین
arifkarim اپنا مراسلہ سینڈ کرنے سے پہلے ایک دفعہ خود ہی پڑھ لیتے تو شرمندگی نہ اٹھانی پڑتی ۔۔۔۔ اب بھی وقت ہے اپنا مراسلہ ایڈٹ کر لیں ۔۔۔ آپ کی اپنی ہی کہی ہوئی باتیں ایک دوسرے سے متصادم ہیں ۔۔۔!
 

arifkarim

معطل
arifkarim اپنا مراسلہ سینڈ کرنے سے پہلے ایک دفعہ خود ہی پڑھ لیتے تو شرمندگی نہ اٹھانی پڑتی ۔۔۔۔ اب بھی وقت ہے اپنا مراسلہ ایڈٹ کر لیں ۔۔۔ آپ کی اپنی ہی کہی ہوئی باتیں ایک دوسرے سے متصادم ہیں ۔۔۔!
جناب آپ مذکورہ دلائل کا ہی جواب دے دیں بجائے تضادات ڈھونڈنے کے۔
 

متلاشی

محفلین
بگ بینگ کا مشاہدہ کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ البتہ اسکی باقیات آج بھی کائنات میں موجود ہیں۔ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ بگ بینگ کیسا تھا البتہ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ بگ بینگ کبھی نہیں ہوا۔
اگر بگ بینگ کا مشاہدہ کرنا ناممکنات میں سے ہے تو پھر اس ناممکن مفروضے کو بنیاد بنا کر اتنی تھیوریاں کیسے پیش کی گئی ہیں ۔۔۔؟؟؟؟ ذرا پچھلے صفحات پر سائنس کی دی گئی تعریف پر غور کریں۔۔۔ آپ کی پیش کردہ سائنس کی تعریف ہے غلط پھر تو۔۔۔! یا پھر بگ بینگ کا نظریہ غلط ہے ایک بات کو مان لیں ۔۔۔
 

متلاشی

محفلین
جب آپ خدا کے مفروضے کو ماننے پر تلے ہی ہوئے ہیں تو کسی کو بھی خدا بنا لیں۔اس چیز کی فکر کیوں کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا کہ وقت کی ڈائی مینشن خود بگ بینگ کے بعد وجود میں آئی۔
میرا لفظ خدا سے مطلب خالقِ کائنات ہے ۔۔۔۔؟ اس کا جواب آپ کے ذمہ ہے ۔۔۔
کیا آپ اس جنرل پرسیپشن کو مانے ہیں کہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خالق موجود ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اور بگ بینگ نظریہ کے مطابق اس وقت کائنات ایک بڑے مادے Primary Nebula کی صورت میں تھی جس وقت بگ بینگ کا عمل ظہور پذیر ہوا۔۔۔ تو سوال یہ ہے کہ وہ بڑا مادہ کیسے خود بخود تخلیق ہوا؟؟؟ اس کا خالق کون ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

متلاشی

محفلین
قرآن کوئی سائنسی کتاب نہیں۔ اسے سائنس سمجھ کر مت پڑھیں۔ یہ دینی و مذہبی کتاب ہے۔
جی متفق ہوں کہ قرآن سائنسی کتاب نہیں مگر یہ سائنس کی بہت سی تہیں اور پرتیں کھولتی ہے اور وہ وہ باتیں بتاتی ہے جنہیں سائنس آج ثابت کر رہی ہے اور یہ کتاب 14 سو سال پہلے وہ باتیں بیان کر چکی ہے ۔۔۔ کہیں تو اس کی مثالیں لا کر دے دوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کیا یہ اس بات کا بین ثبوت نہیں کہ یہ ایک الہامی کتاب ہے ؟؟ کیونکہ بقول سائنس 14 سو سال پہلے تو ایسی ترقی کا تصور بھی نا ممکن تھا۔۔۔
 

متلاشی

محفلین
یہ مفروضہ نہیں حقیقت ہے۔ سائنسی ترقی تحقیق کی محتاج ہے جو آگے سے وقت کامحتاج ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا ویسے ویسے اس فیلڈ میں سائنس ترقی کرتی چلے جائےگی۔
جو چیز خود مزید ترقی اور تحقیق کی محتاج ہو اسے کوئی بھی ذی شعور ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے کسوٹی نہیں بنا سکتا۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

متلاشی

محفلین
سائنس ایسے من گھڑت مفروضوں کی بنیاد پر نہیں کھڑی جو آئے دن غلط ثابت ہو جائیں۔ سائنس خدا کی انکاری نہیں بلکہ خدا کے وجود کا منطقی و عقلی اثبوت مانگتی ہے۔ آپ وہ فراہم کر دیں اور نوبل انعام حاصل کر لیں۔
ہاہاہا۔۔۔ جس طرح سائنس ابھی تک روح اور عقل و شعور کے مادی وجود کا کوئی سائنٹفک ثبوت فراہم نہیں کر سکی مگر اس کے باوجود بھی آپ انسان کے اندر شعور نامی کسی شے کو مانتے ہیں ۔۔۔
تو یہ ضروری نہیں کہ جو چیز سائنس ثابت نہ کر سکے اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔۔۔۔
ویسے محفل کے دیگر سائنسدانوں کو ہو سکتا ہے آپ کی اس بات سے اختلاف ہو کہ سائنس خدا کے وجود کی انکاری نہیں ۔۔۔۔ :)
 

متلاشی

محفلین
آپ کو کس حکیم نے کہا کہ بگ بینگ کسی سیارے کے ٹوٹنے کا نتیجہ ہے؟ باقی خالق کا مفروضہ آپ کا گھڑا ہوا ہے جسکی آپ کو تلاش ہے۔ اسے ڈھونڈتے رہیے۔
سائنس خالق کی تلاش مفروضوں کی بنیاد پر نہیں کرتی۔ بلکہ اس کائنات کے رازوں کو عقل، تجربات، مشاہدات کی کسوٹی پر رکھتےہوئے نتائج اخذ کرتی ہے۔
ذرا بگ بینگ تھیوری کا مطالعہ کریں ۔۔۔۔ Primary Nebula آخر کیا چیز تھی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

arifkarim

معطل
جو چیز خود مزید ترقی اور تحقیق کی محتاج ہو اسے کوئی بھی ذی شعور ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے نظریہ نہیں بنا سکتا۔۔۔۔
سائنس نظریاتی نہیں تجرباتی ہوتی ہے۔ سائنسی نظریات از خود تجربات و مشاہدہ کی بنیاد پر جنم لیتے ہیں۔
 

متلاشی

محفلین
سائنس روح کی انکاری نہیں، اسکے وجود کو منطقی و عقلی طور پر ثابت کرنا چاہتی ہے۔ آپکے پاس یہ ہیں تو سائنسدانوں کو بتا کر نوبیل انعام جیت لیں۔
ہاہاہا ۔۔۔ آپ کے بڑے سائنس دان فاتح بھائی سائنسی طور پر روح کا انکار کر چکے ہیں اور اگلے ہی مراسلے میں آپ بھی :) پچھلے مراسلوں پر اک نظر ڈال لیں
جی نہیں، یہ آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ لایعنی روح کدھر ہے؟
 

arifkarim

معطل
ہاہاہا۔۔۔ جس طرح سائنس ابھی تک روح اور عقل و شعور کے مادی وجود کا کوئی سائنٹفک ثبوت فراہم نہیں کر سکی مگر اس کے باوجود بھی آپ انسان کے اندر شعور نامی کسی شے کو مانتے ہیں ۔۔۔
تو یہ ضروری نہیں کہ جو چیز سائنس ثابت نہ کر سکے اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔۔۔۔
ویسے محفل کے دیگر سائنسدانوں کو ہو سکتا ہے آپ کی اس بات سے اختلاف ہو کہ سائنس خدا کے وجود کی انکاری نہیں ۔۔۔۔ :)
سائنس یہ بات کب کی ثابت کر چکی ہے کہ تمام شعور کا ماخذ انسانی دماغ ہے۔ اب آیا شعور خود کیا ہے اس پر جدید تحقیق جاری ہے۔
 
Top