محترم استاد الف عین صاحب
یہ مت سمجھ کہ کسی عارضی دھمال میں ہے
فقیر رقص_کناں دائمی دھمال میں ہے
عجیب رنگ_فسوں چھا گیا ہے بستی پہ
فغاں سکوت میں اور خامشی دھمال میں ہے
اندھیری رات میں جگنو ہیں ہم سفر میرے
سو میرے واسطے تیرہ شبی دھمال میں ہے
مجھے سکون سے مطلب ہے سو جہاں سے ملے
بدن کے ساتھ مری...
حسین یادیں جلا گیا ہے
اکیلا ہم کو بٹھا گیا ہے
جھکی نہ تھی جو کسی کے آگے
ہماری گردن جھکا گیا ہے
وہ ساتھ گزرے ہوے ہمارے
حسین لمحے بھلا گیا ہے
رفاقتیں تھیں حماقتیں تھیں
وہ سارے ناطے مٹا گیا ہے
گلی میں ہر سو ہیں لاشے بکھرے
وہ رخ سے پردہ اٹھا گیا ہے
ادھر ہی بیٹھا ہوں سائل اب تک
جدھر وہ ہم کو...
ابھی مکمل نہی مری نظر میں سر الف عین آپ نے میرا ایک یا دو کلام پہلے بھی پڑا ھے مہربانی ھو گی اگر بتا دیں کے کلام موزوں ہے یا نہیں اور مجھے مزید یہ نظم لکھنی چاہیے یا اس کو ہی بھتر اختتام دے کے ختم کر دوں
ساری کی ساری نظم بحر میں ہے سواے اک لفظ ( خبر ) کے اس پہ بھی کچھ روشنی ڈال دیجے گا
کچھ سنو تو بولوں میں
بات یہ پرانی ہے
گرمیوں کے دن تھے وہ
صبح کی گڑی ہو گی
میں اداس بیٹھا تھا
سوچ میں کہیں گم تھا
اپنے ہی خیالوں میں
پھر مجھے اچانک یہ
سانحہ کی خبر ملی
سانحہ بھی ایسا تھا
روح کو مری جس نے
زخم کچھ لگا یا تھا
ماں نہیں مری میری
مر گیا میں تھا شا ید
کچھ سنو تو بولوں میں
بات یہ پرانی...
شام ڈھلتے ہی عجب کیف سا چھا جاتا ہے
کوی یادوں کا دیا دل میں جلا جاتا ہے
شب ہجراں میں کہاں درد سہا جاتا ہے
ایسا منظر تو قیامت ھے کہا جاتا ہے
ہم تو تنھا ھیں زمانے میں مسافر کی طرح
دل مگر زد پہ اڑا ہے کسی کافر کی طرح
الف عین صاحب یہ بتا دیجیے
نظم میں بحر ھر بند کی علحدہ استعمال کر سکتے ھیں یا...