میں نے بہت کوشش کی ہے کہ میں اس تصویر کو نہ دیکھو جو اس وقت میرے کمپیوٹر کی سکرین پر موجود ہے اور مجھ سے ایک ہی سوال کر رہی ہے کہ میرا جرم کیا تھا۔ میرا کیا گناہ تھا ۔ میرا گناہ ایک عورت ہونا تھا یا تعلیم ہونا اور یا پھرزندگی کے کٹھن سفر پر سر نہ جھکانا ہی میرا گناہ تھا۔یہ تصویر 6جنوری کو کوہاٹ...
محترم عبد القیوم چوہدری صاحب !
نشاندہی کےلئے بہت ہی شکریہ ۔ بہت سی کجی اور کوتاہیاں ہیں ۔ آپ کا بڑا پن ہے کہ افسانے کو اچھا قرار دیا ہے ۔ کیا ان اغلاط کو اس مراسلے میں ہی تدوین کر دوں یا پھر اگلی بار کےلئے چھوڑ رکھوں
’’چٹاخ …………حرامزادی ……اور پھر ایک زور دار دھڑام کی آواز کے ساتھ ہی اس کی ماں اڑتی ہوئی دروازے سے باہر آگری ۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی کمرے سے ا سکے والد نمودار ہوئے ان کے ہاتھ میں بانس کا ڈنڈا تھا جو انہوں نے شاید اس کی ماں کو پیٹنے کیلئے لا کر رکھا تھا۔ باپ کو دیکھتے ہی وہ...
انوکھی ہے دل تیری باتیں انوکھی ہے تیری کہانی
جوانی سے برباد ہو تم برباد تم سے جوانی
محبت کی اندھی گلی میں بہت دل کا چرچا ہوا
مگر پھر محبت کے صدقے وہ گلیوں میں رسوا ہوا
محبت جہاں ڈس گئی ہے وہیں درد پھیلا ہوا ہے
بدن چھو کر نہ دیکھو میرا یہ چھونے سے میلا ہوا ہے
میل دھونے سے اترے تو مانوں کام آتا...
تمہارا دعویٰ ہے کہ
تم جو چاہو
تو آسمان کو زمیں کر دو
اور اپنی اک نگاہِ سحر سے
سب تاریک چہروں کو
ایسا دلکش حسین کردو
کہ نگاہ جس پر نہ ٹھہر پائے
اگر ہے ایسا تو جانِ جانم
جہاں میں ایسا جہاں بنا دو
ہو اندر باہر سے ایک جیسے
کھری محبت کو عام کر دو
منافقت کا نشاں مٹا دو
کس بستی میں آن بسا ہوں
جس کے سارے لوگ ہیں پتھر
راستے پتھر ، کوچے پتھر
در پتھر کے ، گھر پتھر کے
جو چہرہ تھا پتھر کا تھا
اُس کی باتیں پتھر کی تھیں
اُس کا لہجہ پتھر کا تھا
گیتوں کی لےِ پتھر کی تھی
اِس بستی کو چھوڑ چلا ہوں
ہر اِک نسبت توڑ چلا ہوں
لیکن واپس پھر آؤں گا
جب میں پتھر ہو جاؤں گا
میں عمر کے رستے میں چپ چاپ بکھر جاتا
ایک روز بھی گر اپنی تنہائی سے ڈر جاتا
میں ترک تعلق پہ زندہ ہوں سو مجرم ہوں
کاش اس کےلئے جیتا ، اپنے لئے مر جاتا
اس روز کوئی خوشبو قربت میں نہیں جاگی
میں ورنہ سنور جاتا اور وہ بھی نکھر جاتا
اس جانِ تکلم کو تم مجھ سے تو ملواتے
تسخیر نہ کرپاتا حیران تو کرجاتا...
کٹھن اندھیروں کی راہ گزر پر
چراغ صبح جلا جلا کے
قسم سے آنکھیں بھی تھک گئی ہیں
تمہارے آنسو چھپا چھپا کے
یہ کیا خبر تھی کہ ایک چہرے سے
کتنے چہرے کشید ہوں گے
میں تھک گیا ہوں تمہارے چہروں کو
آئینوں میں سجا سجا کے
ہم اتنے سادہ مزاج کب تھے مگر
سرابوں کی راہ گزر پر
فریب دیتا رہا زمانہ
تمہاری...
میرے ہم سفر میرے ہم نشیں
میں نے رب سے مانگا تو کچھ نہیں
میں نے جب بھی مانگی کوئی دُعا
نہیں مانگا کچھ بھی تیرے سوا
یہ طلب کیا کہ میرے خدا
سبھی راحتیں، سبھی چاہتیں
وہ عطا کرے تجھے منزلیں
یہ طلب کیا کہ میرے خدا
تجھے تخت دے ، تجھے تاج دے
تجھے بخت دے
میری التجائیں سنے کبھی
تو بخش دے انہیں وہ...