شہر دل دشت ہوا ہے تو ہوا رہنے دو
میری آنکھوں میں مگر اس کو بسا رہنے دو
کچھ عطا کی ہے تمنا نہ جزا کی خواہش
جرم الفت کی میرے حق میں سزا رہنے دو
میں پس ترک تعلق بھی ہوں شیدا اس کا
وہ اگر اب بھی ہے مصروف جفا رہنے دو
میرے حق میں نہ کوئی چارہ کرو، چارہ گرو
جس کا بیمار ہوں اس در بہ پڑا رہنے دو
اس...
اس بےچارے کا قصور یہ ہے کہ اس نے ایک دیوبندی ملا کے ہتھے چڑھ کر گانے گانے سے توبہ کرلی اور دین کی طرف مائل ہوگیا. اگر آج گانے گا رہا ہوتا تو اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہ آتا اور ہر وقت اس کے گرد پرستاروں کا ہجوم رہتا. ہائے افسوس! انہی وجوہات کی بنا پر لوگ دین کے قریب نہیں آتے. یہ لمحۂ فکریہ ہے...
انتہائی افسوس ناک بات ہے. ایک مذہبی ذہنیت رکھنے والے اور بےضرر شخص کے ساتھ ایسا سلوک؟ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہوگی. اور اس پر جنید بھائی کا ردعمل دیکھئے کہ انہوں نے ٹویٹر پر کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے میں نے سب کو معاف کیا اور میں ان کے لیے بددعا بھی نہیں کروں گا، یہ نہیں تو ان کی نسلیں...
آں کس کہ نداند و بداند کہ بداند،
در جہل مرکب ابد الآباد بماند.
(شاعر نامعلوم)
جو شخص کسی بات کو نہ جاننے کے باوجود یہ گمان کرتا ہے کہ میں اس بات کو جانتا ہوں،
تو ایسا شخص ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہل مرکب میں رہتا ہے.
(نوٹ) اس شعر کو جہل مرکب کی منظومانہ تعریف بھی کہہ سکتے ہیں.
دیدار مےنمائی و پرہیز مےکنی.
بازار خویش و آتش ما تیز مےکنی.
(سعدی شیرازی)
کبھی دیدار کراتا ہے اور کبھی دیدار سے پرہیز کرتا ہے.
یوں اپنے بازار حسن کی قیمت بھی بڑھاتا ہے اور ہمارے عشق کی آگ بھی بھڑکاتا ہے.
فرق است میان آں کہ یارش در بر.
با آں کہ دو چشم انتظارش بر در
(شیخ سعدی شیرازی)
ان دو شخصوں کے درمیان (بہت) فرق ہے کہ جن میں سے ایک کا محبوب بغل میں ہے اور دوسرا انتظار میں دروازے پر نظر جمائے بیٹھا ہے.
(اس شعر کا سب سے بڑا حسن "در بر" اور "بر در" کا خوبصورت استعمال ہے)
بچھڑنے والے چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ....
کہ کتنی شامیں اداس آنکھوں میں کاٹنی ہیں...؟؟
کہ کتنی صبحیں اکیلے پن میں گزارنی ہیں...؟؟
بتا کے جاؤ....
کہ کتنے سورج عذاب رستوں کو دیکھنا ہے...؟؟
کہ کتنے مہتاب سرد راتوں کی وسعتوں سے نکالنے ہیں...؟؟
بتا کے جاؤ....
کہ چاند راتوں میں وقت کیسے گزارنا ہے...؟؟...
اک چاند پھر نصیب سے دل میں اتر گیا.
پھر یہ ہوا کہ اشکوں سے دامن ہی بھر گیا.
آتش میں چاھتوں کی پگھلتا ہوا جسم.
روشن محبتوں کے دیے کتنے کر گیا.
ہاتھوں کی اپنی بکھری لکیروں کو چوم کر.
دہلیز پر مکاں کی یہ اپنے بکھر گیا.
قطرہ ہے اک مثال بحر اشک دوستو!
ہوش و حواس کھو کے میں اس میں اتر گیا.
رنج و الم...