اک چاند

اک چاند پھر نصیب سے دل میں اتر گیا.
پھر یہ ہوا کہ اشکوں سے دامن ہی بھر گیا.
آتش میں چاھتوں کی پگھلتا ہوا جسم.
روشن محبتوں کے دیے کتنے کر گیا.
ہاتھوں کی اپنی بکھری لکیروں کو چوم کر.
دہلیز پر مکاں کی یہ اپنے بکھر گیا.
قطرہ ہے اک مثال بحر اشک دوستو!
ہوش و حواس کھو کے میں اس میں اتر گیا.
رنج و الم کے جام کا ہے معجزہ حسیں.
نایاب موتیوں سے میرا دل سنور گیا.
سوچوں کا سلسلہ میرا بےکار ہو گیا.
مقطع لکھا تو مطلع نہ جانے کدھر گیا؟
دینے لگے اندھیرے بھی کچھ حوصلہ مجھے.
سینے سے خوف میرا اندھیروں کا مر گیا.
تھی جو سزائے زیست گزاری وہ پیار سے.
میں اپنے دل کی آگ میں جل کر نکھر گیا.
حاصل ہے زیست کیا میرے لکھنے کے شوق میں؟
جس راہ پر تھی موت میں اس سے گزر گیا.
ہے بحر غم میں منتشر کشتی حیات کی.
طوفاں نسیم چھو کے تجھے چشم تر گیا.
اک چاند پھر نصیب سے دل میں اتر گیا.
پھر یہ ہوا کہ اشکوں سے دامن ہی بھر گیا.
 
Top