کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس نظم کی مخاطب "اردو بولن والی کڑی" کے بجائے "شہر وچ رہن والی کڑی" ہوتی۔ نظم میں پیش کیا گیا دیہاتی ماحول تو اب پنجابی بولنے والی شہری کڑی کو بھی میسر نہیں۔
باقی قصور کی جوتی، ملتان کا سوہن حلوہ اور جھنگ کی چوڑیاں ہر زبان بولنے والوں کو میسر ہیں، بس شوق اور ذوق کی بات ہے۔
خطِ نسخ چ لکھیا پنجابی متن پڑھدیاں مینوں انج لگیا جیویں میں زیادہ روانی تے اسانی نال پنجابی پڑھ ریا ہاں۔
ہن مینوں نئیں پتہ ایہدی وجہ خطِ نسخ اے یا فونٹ سائز اے، یا فیر اکھراں دے وچکار غیر معمولی اسپیس اے۔
جی، اپنی زبان پر مقامی اکثریتی زبان کے لب و لہجے کا اثر آنا تو فطری ہے۔
جیسے پنجاب میں آ بسنے والے ٹھیٹھ اردو اسپیکنگ افراد کی نئی نسل کی اردو میں مقامی پنجابی لہجوں کی جھلک نظر آتی ہے۔
میری معلومات کے مطابق پنجابی کے ایک لہجے میں "سی" کی جگہ "تی" اور "تے" بولا جاتا ہے۔
سکھر میں بھی پنجابی بولی جاتی ہے، اور وہ بھی یہ مخصوص لہجہ، یہ مجھے آج پتہ چلا ہے۔
ممکن ہے یہ وہاں کے پنجابی آبادکاروں کی زبان ہو۔
یہ "آور" بہت بار آور لاحقہ لگ رہا ہے۔
میری رائے میں اس لاحقے کی مدد سے نئی تراکیب وضع کی جاسکتی ہیں، مثلاً:
خوف آور (خوف پیدا کرنے والا)
بھوک آور (بھوک لگانے والی/ والا)
قبض آور (دست آور کا الٹ)