محترم الف عین سر
محترم محمد احسن سمیع : راحل سر
دنیا ترے زندان میں معمور ہوئے ہیں
ہم پیکرِ خاکی میں جو محصور ہوئے ہیں
نفرت کے پجاری ہیں جو نفرت کو کریں عام
ہم عشق کی تبلیغ پہ مامور ہوئے ہیں
ناپید ہوئے جاتے ہیں آدابِ محبت
کچھ اور ہی اب عشق کے دستور ہوئے ہیں
یوں ڈھوتے ہیں بوجھ عشق میں ہم...
محترم الف عین سر
اصلاح کا طالب ہوں
غزل
دیکھا ہے سر بام کسی چاند کو جب سے
مانوس ہوئے جاتے ہیں تاریکی شب سے
بیتاب سدا رہتا ہے یادوں میں کسی کی
امید بھی کیا ہو دل آزار طلب سے
کردار سے اپنے ہے یہ توقیر ہماری
ہم وہ نہیں جو جانے گئے نام و نسب سے
زندہ ہیں تو تکلیف کا احساس ہے لازم
کیوں کھائے...
اس قدر بڑھ گئی ہے تنہائی
بار لگنے لگی ہے بینائی
میری امید ہے تو صرف خدا
بخدا میں نہیں ہوں ہرجائی
ایک تکمیل آرزو کے لیے
ہم نے کی آپ اپنی رسوائی
حال کہتا ہے اپنا اشکوں میں
دل کو آتی نہیں ہے گویائی
مستعد ہے ہمارے قتل پہ وہ
جن کو تھا دعویٰ مسیحائی
دل بہ امید تو رہا ہر دم
کوئی امید بر نہیں آئی...
سر الف عین
غزل کو درست کرنے کی کوشش کی ہے ، اصلاح کا طالب ہوں
آخرش خاک میں انساں کو ملا دیتا ہے
یہ زمانہ یہی انعام وفا دیتا ہے
آنکھ لگتی ہے جو مشکل سے کبھی راتوں کو
درد آکر مرے شانوں کو ہلا دیتا ہے
غم مقدر ہے سبھی کا وہ ہو مفلس کہ امیر
غم وہ دولت ہے جو ہر اک کو خدا دیتا ہے
وہ مسیحائی بھی...
الف عین سر
زخم دیتا ہے بجز زخم یہ کیا دیتا ہے
یہ زمانہ یہی انعام وفا دیتا ہے
آنکھ مشکل سے جو لگتی ہے کبھی راتوں کو
درد آکر مرے شانوں کو ہلا دیتا ہے
سب کی تقدیر میں غم ہے امرا ہو کے غریب
یہ وہ دولت ہے جو ہر اک کو خدا دیتا ہے
وہ مسیحائی بھی کرتا ہے بہ انداز دگر
اپنے بیمار کو مرنے کی دعا دیتا...