غزل برائے اصلاح

محترم الف عین سر
اصلاح کا طالب ہوں

غزل برائے اصلاح

فائدہ کیا ہے مسکرانے سے
غم چھپے ہیں کہیں چھپانے سے

کیا ہی اچھا ہو گر دلِ برباد
باز آجائے ورغلانے سے

پوچھتے ہو حقیقت ِ دنیا
کم نہیں ہے کسی فسانے سے

گھونٹ ڈالا ہے خواہشات کا دم
بچ گئے ہم فریب کھانے سے

تلخیاں بھول جاؤ ماضی کی
فائدہ کیا ہے دل جلانے سے

مشورہ ہے کہ کیجیے گا گریز
زندگانی میں دل لگانے سے

دل میں ہے آرزو بھی منزل کی
ڈر رہے ہیں سفر پہ جانے سے

ہے فراغت جو ان دنوں تنویر
شعر کہ لو اسی بہانے سے
 
آخری تدوین:
Top