غزل برائے اصلاح

الف عین سر

زخم دیتا ہے بجز زخم یہ کیا دیتا ہے
یہ زمانہ یہی انعام وفا دیتا ہے

آنکھ مشکل سے جو لگتی ہے کبھی راتوں کو
درد آکر مرے شانوں کو ہلا دیتا ہے

سب کی تقدیر میں غم ہے امرا ہو کے غریب
یہ وہ دولت ہے جو ہر اک کو خدا دیتا ہے

وہ مسیحائی بھی کرتا ہے بہ انداز دگر
اپنے بیمار کو مرنے کی دعا دیتا ہے

سرد ہوجاتی ہے دل میں جو کبھی آتشِ عشق
حسن سفاک ہے پھر آگ لگا دیتا ہے

حوصلے یوں تو مددگار ہیں صاحب لیکن
وقت حالات کے قدموں پہ گرا دیتا ہے

اس کی مرضی پہ ہی راضی ہوں میں تنویر کہ جو
کچھ جو لیتا ہے تو کچھ اس سے سوا دیتا ہے

سید تنویر رضا
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر

زخم دیتا ہے بجز زخم یہ کیا دیتا ہے
یہ زمانہ یہی انعام وفا دیتا ہے
میری ناقص عقل میں تو یہ مطلع سمجھ میں نہیں آیا، پہلا مصرع مجہول ہے
آنکھ مشکل سے جو لگتی ہے کبھی راتوں کو
درد آکر مرے شانوں کو ہلا دیتا ہے
درست، اچھا انداز بیان ہے
سب کی تقدیر میں غم ہے امرا ہو کے غریب
یہ وہ دولت ہے جو ہر اک کو خدا دیتا ہے
روفی نے درست کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی امراء، جمع اور غریب واحد کا ایک ساتھ آنا درست نہیں لگتا۔ الفاظ بدل کر کوشش کرو۔ شاید ثانی کو
غم وہ دولت ہے...
کرنے سے اولی بہتر بن سکے
وہ مسیحائی بھی کرتا ہے بہ انداز دگر
اپنے بیمار کو مرنے کی دعا دیتا ہے
درست
سرد ہوجاتی ہے دل میں جو کبھی آتشِ عشق
حسن سفاک ہے پھر آگ لگا دیتا ہے
درست
حوصلے یوں تو مددگار ہیں صاحب لیکن
وقت حالات کے قدموں پہ گرا دیتا ہے
صاحب بھرتی کا ہے. دوسرا مصرع بھی واضح نہیں
اس کی مرضی پہ ہی راضی ہوں میں تنویر کہ جو
کچھ جو لیتا ہے تو کچھ اس سے سوا دیتا ہے

سید تنویر رضا
درست
 
سر الف عین
غزل کو درست کرنے کی کوشش کی ہے ، اصلاح کا طالب ہوں

آخرش خاک میں انساں کو ملا دیتا ہے
یہ زمانہ یہی انعام وفا دیتا ہے

آنکھ لگتی ہے جو مشکل سے کبھی راتوں کو
درد آکر مرے شانوں کو ہلا دیتا ہے

غم مقدر ہے سبھی کا وہ ہو مفلس کہ امیر
غم وہ دولت ہے جو ہر اک کو خدا دیتا ہے

وہ مسیحائی بھی کرتا ہے بہ انداز دگر
اپنے بیمار کو مرنے کی دعا دیتا ہے

سرد ہوجاتی ہے دل میں جو کبھی آتشِ عشق
حسن سفاک ہے پھر آگ لگا دیتا ہے

حوصلے یوں تو مددگارِ بشر ہیں لیکن
وقت انسان کو لاچار بنا دیتا ہے

اس کی مرضی پہ ہی راضی ہوں میں تنویر کہ جو
کچھ جو لیتا ہے تو کچھ اس سے سوا دیتا ہے
 
Top