تری صورت نہیں دیکھی۔۔
مگر آواز کے سْر سے۔۔۔
شناسائی سی لگتی ہے۔۔۔۔
تیری آواز سے شاید میں اکثر ملتا رہتا ہوں۔۔
وہ جیسے گاؤں میں پہلے۔۔
کسی دربار پر بیٹھا کوئی بوڑھا عقیدت مند۔۔
کبھی جب نیم شب۔۔
دیوار سے لگ کر۔۔
بڑے پْر درد لہجے میں کسی آیت کو پڑھتا تھا۔۔
تو لگتا تھا وہ آیت۔۔۔۔۔۔۔
گاؤں کی سنسان...
وہ پہلے سے سیانے ہو گئے ہیں
یا شاید ہم دیوانے ہو گئے ہیں
جمی ہے گرد چہروں پر غموں کی
سبھی چہرے پرانے ہو گئے ہیں
جسے دیکھیں اسی کو مار ڈالیں
بڑے پکے نشانے ہو گئے ہیں
مری آنکھوں پہ حلقے پڑ گئے ہیں
مجھے سوئے زمانے ہو گئے ہیں
تعارف نظم سے بھی ہو چکا ہے
غزل سے بھی یارانے ہو گئے ہیں
کبھی راحیلؔ ہم بھی...
غزل
جب درد تیری یاد کا تاثیر سے مِلا
تیرا وجود پِھر مری تحریر سے مِلا
اِک شخص کی تلاش میں کھویا ہوا تھا میں
مِل تو گیا مگر ذرا تاخِیر سے مِلا
پانی کے درمیان شجر سْوکھتا ہوا
اِس خواب کا پتہ مجھے تعبیر سے مِلا
دیوار میں شگاف سے چھت خستہ حال سی
منظر قدیم اک نئی تعمیر سے مِلا
"لگتی نہیں پلک سے پلک...
دو راستے بنا دیئے انسان کے لئے
تخلیقِ کائنات کا آغاز جب ہوا
یزداں نے پِھر بشر سے کہا غور کر ذرا
باطل کا اور حق کا ہے رستہ جدا جدا
تجھ کو ہے اختیارِ سفر انتخاب کر
جِس راستے سے چاہے گزر انتخاب کر
حق پر ہیں مشکلات کڑا امتحان ہے
صحرا کی گرم ریت ہے اور بے گھَری بھی ہے
نظارہِ فرات ہے تِشنہ لبی بھی ہے...
آج تھوڑی شراب ہو جائے
اور تیرا شباب ہو جائے
حسن گر بے نقاب ہو جائے
زندگی کامیاب ہو جائے
درد پھر بے حساب ہو جائے
ہر گھڑی احتساب ہو جائے
عشق تو عشق ہے خدا جانے
کب یہ کافر عزاب ہو جائے
ہجر تیرا وصال ہونے تک
عاشقوں کا نصاب ہو جائے
روزِ محشر خدا کرے واعظ
تجھ پہ جنت عتاب ہو جائے
رات تیرے نگر اگر...
حسرتوں کے ملال سے نکلیں
کیسے اس کے خیال سے نکلیں
آؤ اس ہجر کو وصال کریں
اور آگے وصال سے نکلیں
عشق میں یہ بہت ضروری ہے
زخم ہی اندمال سے نکلیں
عین ممکن ہے درد کے مارے
زندگی کے وبال سے نکلیں
فکر اتنی ہے ایک لمحے کو
دور تیرے خیال سے نکلیں
عمر راحیلؔ خرچ کر ڈالیں
زندگی تیرے جال سے نکلیں
کیسی رت ہے یہ کیسا موسم ہے
آدمی آدمی سے برہم ہے
ذہن میں بج رہے ہیں شام کے ساز
دل میں لیکن سحر کی سرگم ہے
کوئی صورت ضرور نکلے گی
وقت گھاؤ ہے وقت مرہم ہے
منزلیں راستے سے ملتی ہیں
راستہ منزلوں کا پرچم ہے
نفرتیں کر رہا ہے پھر بھی عدیلؔ
جبکہ ہر شخص ابن آدم ہے