پتھر ہی لگیں گے تجھے ہر سمت سے آکر
یہ جھوٹ کی دنیا ہے یہاں سچ نہ کہا کر
اپنے ہی شب و روز میں مصروف رہا کر
ہم لوگ برے ہیں تو ہم سے نہ ملا کر
مٹی کا پیالہ بھی نہیں اپنے گھروں میں
خیرات میں چاندی کا تقاضہ نہ کیا کر
تیرا پیار میری تقدیر میں لکھا ہی نہیں ہے
اب چھوڑ دے ہاتھوں کی لکیریں نہ پڑھا کر...
جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے
ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے
چاند تارے مرے قدموں میں بچھے جاتے ہیں
یہ بزرگوں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے
ماں مجھے دیکھ کے ناراض نہ ہو جائے کہیں
سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے تو ڈر لگتا ہے
انجم رہبر
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
علامہ اقبال
میرے حجرے میں نہیں، اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو ؟ لے آؤ، زمیں پر رکھ دو
اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمِیں پر رکھ دو
میں نے اُس طاق میں کُچھ ٹوٹے دئیے رکھے ہیں
چاند سورج کو بھی لے جا کے وہیں پر رکھ دو
راحت اندوری