مشاعرے میں شرکت کی دعوت کیلیے بے حد شکریہ۔ دو غزلیں احباب کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد اجازت چاہوں گا۔
نہیں ہوتا نسب محبت میں
کیا عجم، کیا عرب محبت میں
ہم نے اک زندگی گزاری ہے
تم تو آئے ہو اب محبت میں
اور کیا کلفتیں اٹھاتے ہم
ہو گئے جاں بلب محبت میں
خامشی ہی زبان ہوتی ہے
بولتے کب ہیں لب...
ثمینہ راجہ کی ایک غزل:
شاید کہ موجِ عشق، جنوں خیز ہے ابھی
دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی
ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم
اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی
پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے
گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی
اک نونہالِ خواب ہے دنیا کی زد پر آج
اِس غم کی خیر ہو کہ یہ...
ثمینہ راجہ کی ایک غزل:
شاید کہ موجِ عشق، جنوں خیز ہے ابھی
دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی
ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم
اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی
پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے
گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی
اک نونہالِ خواب ہے دنیا کی زد پر آج
اِس غم کی خیر ہو کہ یہ...
غزل
تیری صورت کی بات کرتے ہیں
پھول فطرت کی بات کرتے ہیں
چھیڑیے اضطراب کا نغمہ
آج وحشت کی بات کرتے ہیں
سانس کو راستہ نہیں ملتا
آپ ہجرت کی بات کرتے ہیں!
ہم کو نفرت سے دیکھنے والو!
ہم محبت کی بات کرتے ہیں
اتنی تمہید کس لیے آصفؔ
بس ضرورت کی بات کرتے ہیں
ایک غزل:
آنکھ کھل جائے گی تو خواب ادھورا ہوگا
کس نے سوچا تھا مری جان! کہ ایسا ہوگا
اب بھی کچھ وقت ہے خواہش پہ لگا لو پہرے
بات جب حد سے بڑھے گی تو تماشا ہوگا
وہ بچھڑنے کی گھڑی کتنی کڑی تھی اس پر
مجھ کو معلوم ہے اُس رات وہ رویا ہوگا
گزرے لمحوں کی اسے یاد تو آتی ہوگی
جانے کیا سوچ کے آنگن میں ٹہلتا...
ایک بہت پرانی نظم آج نظر سے گزری۔ احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت چاہوں گا۔
وہ کیسے خواب لمحے تھے
صبا پیغام لائی تھی
گلوں کی بے قراری کا
عجب دیوانگی سی تھی
خزاں دیدہ فضاؤں میں
ردائے خوف نے سب کو
چھپا رکھا تھا دامن میں
کہیں شبنم بہاتی تھی
زمیں پر خون کے آنسو
کہیں کلیوں کے ہونٹوں سے
تبسم روٹھ...
چھوٹی بحر ہی میں ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
کہ شہرت یار تک پہنچے
سو ہم اِس دار تک پہنچے
سبھی طوفاں سے الجھے ہیں
کوئی تو پار تک پہنچے!
یہ ممکن ہے، مرا سایہ
تری دیوار تک پہنچے
یہ کچھ کم تو نہیں ہے، ہم
کسی معیار تک پہنچے
یہی تو ہے کمالِ فن
ہنر اغیار تک پہنچے
کہیں ایسا نہ ہو قصہ
ترے انکار تک پہنچے
ہو...