روح

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میرے محترم بھائی
لفظ بصورت موتی بکھیرے آپ نے ۔ بلاشبہ
چونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کیا کہا جا رہا ہے
بنا یہ دیکھے کہ کون کہہ رہا ہے ؟
کہنے والے سے میرا روحانی و جسمانی رشتہ کیا ہے ؟
جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی کی آپ جناب نبی پاک علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب صدیق اکبر (رض) کو " کلمہ طیبہ " سناتے ہیں ۔
اور اسلام کی جانب بلاتے ہیں ۔
آپ جناب صدیق اکبر بنا اک لحظہ تاخیر کے اس کلمہ طیبہ کی تصدیق کر دیتے ہیں ۔
یہ جانتے بوجھتے بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اک یتیم و یسیر و امی ہیں ۔
بکریاں چراتے ہیں ۔ اور اس کلمے کی صداقت مشکلات و مصیبتوں کی راہ کھول دے گی ۔
آپ نے اس کلمہ کی صداقت کو پوری معنویت سے جانا اور قبول کیا ۔
اور یہی کلمہ طیبہ " ابو جہل و ابو سفیان پر پیش کیا گیا تو وہ " کون کہہ رہا ہے " میں الجھنے لگنے ۔
ہزار تاویلیں کھڑی کرنے لگے ۔
" علم مومن کی گمشدہ میراث جہاں سے ملے لے لو "
"علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے "
جی جناب
بے شک
اس کا مطلب ہوا کہ پشاور یونیورسٹی کا ملعون سلمان رشدی کی کتب کو نصاب میں شامل کرنے کا اقدام درست ہے
کیونکہ بقول آپ کے "کون کہہ رہا ہے" میں الجھنا ابو جہل ہونا ہے
حضرت جادو بھی ایک علم ہے، روکا کیوں گیا ہے؟
حالانکہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ علم بھی سیکھو چاہے بنگال اور بابل اور مصر ہی کیوں نہ جانا پڑے
کاہن یا نجومی کے پاس جانے کیوں منع کیا گیا؟
ذرا مجھے یہ بھی سمجھا دیجئے
حالانکہ ستارہ شناسی ایک سائنسی علم ہے
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھیا اپنی جگہ سچے ہیں
مگر ہم غالب قلندر کے شاگرد ہیں
جو سختی سے کہتے ہیں

اپنی ہستی ہی سے جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

میرے اپنے گھر میں ماں موجود ہو
اور میں دوسروں کی ماں سے جا کے کہوں ماں جی میرے لیے دعا کریں
مجھے کون پاگل نہیں کہے گا
اول خویش بعد درویش

اللہ تعالیٰ کہتا قرآن میں اللہ کی راہ میں خرچ کرو
مگر ترتیب کیا ہے؟
ذوی القربیٰ ، و الیتٰم ، و ابن السبیل

آپ تو پہلے یتمیٰ کی اشک شوئی میں لگ گئے
جب کہ الللہ پہلا حق اقربا کا بتاتا ہے

ھاھاھاھاھاھاھاھا
میں تو اس بات کا قائل ہوں
مجھے علم سے انکار ہے نہ حکمت سے
مگر میں پاکستان سے برازیل کی یونیورسٹی میں ایم اے اردو کرنے جاؤں
تو کیا آپ مجھے سیانا سمجھو گی؟
بات صرف سوچنے کی ہے
میرے محترم بھائی
وہ جو کہ " اسد اللہ غالب " نہ صرف کہلایا بلکہ اسم بامسمی ثابت بھی ٹھہرا ۔
وہ قلندر جو کہ غواص بحر لفظ و معنی کے لفظ سے سرفراز ہوا ۔
اس قلندر نے خود پرستی کا سبق کبھی نہیں پڑھایا ۔
آپ جس شعر کو بطور دلیل پیش کر رہے ہیں ۔ میرے بھائی
اپنی ہستی ہی سے جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
اس میں جس شئے "ہستی " کو استعارہ بنایا گیا ہے ۔ وہ ہستی
انسان کا نفس اور ذات نہیں ہے بلکہ یہ " ہستی " تو وہ ہے
جو کہ پھونک "نفخ " سے امر قرار پاتے قلب انسانی کو دھڑکا کر لہو کو گردش میں رکھتی ہے ۔
منبع ہستی کو تلاش کرتے اگر آگہی نہ بھی ملے تب بھی تلاش بے سود نہیں ٹھہرتی ۔
آگ کی تلاش میں نکلتے ناکام رہنا ۔ اس روشنی کو پانے کا سبب بھی بن جاتا ہے ۔ جو کہ دوسروں کو روشن کر دے ۔
بلاشبہ ماں کی گود ہمارا پہلا مدرسہ ۔
لیکن " مہد سے لحد تک علم حاصل کرو " کا فرمان ہمیں بلا تخصیص جنس و مذہب کئی استادوں کی قدم بوسی پر مہمیز دیتا ہے ۔

اور وہ نیکی جو کہ کسی بھی رشتے و جذبے سے بالاتر ہو کر کی جائے ۔ سچی نیکی کہلاتی ہے ۔
رزق کی تلاش میں جو کماؤ اسے اس ترتیب سے خرچ کرو ۔،
یہ دینے میں شامل خرچ کی ترتیب
لینے اور اخذ وکسب کرنے کی تخصیص نہیں ۔ میرے بھائی
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میرے محترم بھائی
لفظ بصورت موتی بکھیرے آپ نے ۔ بلاشبہ
چونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کیا کہا جا رہا ہے
بنا یہ دیکھے کہ کون کہہ رہا ہے ؟
کہنے والے سے میرا روحانی و جسمانی رشتہ کیا ہے ؟
جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی کی آپ جناب نبی پاک علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب صدیق اکبر (رض) کو " کلمہ طیبہ " سناتے ہیں ۔
اور اسلام کی جانب بلاتے ہیں ۔
آپ جناب صدیق اکبر بنا اک لحظہ تاخیر کے اس کلمہ طیبہ کی تصدیق کر دیتے ہیں ۔
یہ جانتے بوجھتے بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اک یتیم و یسیر و امی ہیں ۔
بکریاں چراتے ہیں ۔ اور اس کلمے کی صداقت مشکلات و مصیبتوں کی راہ کھول دے گی ۔
آپ نے اس کلمہ کی صداقت کو پوری معنویت سے جانا اور قبول کیا ۔
اور یہی کلمہ طیبہ " ابو جہل و ابو سفیان پر پیش کیا گیا تو وہ " کون کہہ رہا ہے " میں الجھنے لگنے ۔
ہزار تاویلیں کھڑی کرنے لگے ۔
" علم مومن کی گمشدہ میراث جہاں سے ملے لے لو "
"علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے "
یعنی کہ میں آج سے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کا بھی مطالعہ شروع کر دوں
ہو سکتا ہے کچھ نہ کچھ اچھا لکھ ہی گیا ہو
مجھے واقعی یہ نہیں دیکھنا چاہیے کون کہہ رہا ہے
مجھے ڈر ہے کہیں آپ مجھے دل ہی دل میں "بنیاد پرست" نہ سمجھ رہے ہوں
 

نایاب

لائبریرین
جی جناب
بے شک
اس کا مطلب ہوا کہ پشاور یونیورسٹی کا ملعون سلمان رشدی کی کتب کو نصاب میں شامل کرنے کا اقدام درست ہے
کیونکہ بقول آپ کے "کون کہہ رہا ہے" میں الجھنا ابو جہل ہونا ہے
حضرت جادو بھی ایک علم ہے، روکا کیوں گیا ہے؟
حالانکہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ علم بھی سیکھو چاہے بنگال اور بابل اور مصر ہی کیوں نہ جانا پڑے
کاہن یا نجومی کے پاس جانے کیوں منع کیا گیا؟
ذرا مجھے یہ بھی سمجھا دیجئے
حالانکہ ستارہ شناسی ایک سائنسی علم ہے
میرے محترم بھائی میں اپنے مکالمے کو آپ سے معذرت کرنے یہیں روکتا ہوں ۔
جب مکالمے میں ذاتیات در آنے لگیں تو دلائل الزام کی صورت اختیار کر جاتے ہیں ۔
آپ نے میری دلیل کو ذاتی طور پر خود پر چسپاں کیا ہے ۔
میں معذرت کرتے اس گفتگو سے دستبردار ہوتا ہوں ۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میرے محترم بھائی
وہ جو کہ " اسد اللہ غالب " نہ صرف کہلایا بلکہ اسم بامسمی ثابت بھی ٹھہرا ۔
وہ قلندر جو کہ غواص بحر لفظ و معنی کے لفظ سے سرفراز ہوا ۔
اس قلندر نے خود پرستی کا سبق کبھی نہیں پڑھایا ۔
آپ جس شعر کو بطور دلیل پیش کر رہے ہیں ۔ میرے بھائی
اپنی ہستی ہی سے جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
اس میں جس شئے "ہستی " کو استعارہ بنایا گیا ہے ۔ وہ ہستی
انسان کا نفس اور ذات نہیں ہے بلکہ یہ " ہستی " تو وہ ہے
جو کہ پھونک "نفخ " سے امر قرار پاتے قلب انسانی کو دھڑکا کر لہو کو گردش میں رکھتی ہے ۔
منبع ہستی کو تلاش کرتے اگر آگہی نہ بھی ملے تب بھی تلاش بے سود نہیں ٹھہرتی ۔
آگ کی تلاش میں نکلتے ناکام رہنا ۔ اس روشنی کو پانے کا سبب بھی بن جاتا ہے ۔ جو کہ دوسروں کو روشن کر دے ۔
بلاشبہ ماں کی گود ہمارا پہلا مدرسہ ۔
لیکن " مہد سے لحد تک علم حاصل کرو " کا فرمان ہمیں بلا تخصیص جنس و مذہب کئی استادوں کی قدم بوسی پر مہمیز دیتا ہے ۔
اور وہ نیکی جو کہ کسی بھی رشتے و جذبے سے بالاتر ہو کر کی جائے ۔ سچی نیکی کہلاتی ہے ۔
رزق کی تلاش میں جو کماؤ اسے اس ترتیب سے خرچ کرو ۔،
یہ دینے میں شامل خرچ کی ترتیب
لینے اور اخذ وکسب کرنے کی تخصیص نہیں ۔ میرے بھائی
نہ حضور نہ
آپ ہماری غالب والی رگ نہ ہی چھیڑیں تو بہتر ہے
کیونکہ میری ساری زندگی کی کمائی صرف یہی ہے
باقی آپ جانیں ، وہ ہمارا مسئلہ نہیں
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میرے محترم بھائی میں اپنے مکالمے کو آپ سے معذرت کرنے یہیں روکتا ہوں ۔
جب مکالمے میں ذاتیات در آنے لگیں تو دلائل الزام کی صورت اختیار کر جاتے ہیں ۔
آپ نے میری دلیل کو ذاتی طور پر خود پر چسپاں کیا ہے ۔
میں معذرت کرتے اس گفتگو سے دستبردار ہوتا ہوں ۔
حضور اعلی یہ ایک دوستانہ گفتگو ہے
جس میں آپ ہیں اور میں ہیں فی الحال کوئی تیسرا نہیں
ابھی جاری رکھیں
جب کوئی انجان شامل ہوا تو میں کود بخود کان لپیٹ کے سائیڈ پہ ہو جاؤں گا
خوامخواہ ٹچی نہ ہوں ، میرا ہر گز کوئی ایسا مطلب نہیں تھا
میں ہاتھ جوڑتا ہوں سرکار نارض مت ہوں ، اور گفتگو کو جاری رکھیں
اور اس سوا ل کا آئیں بائین شائیں کی بجائے پراپر جواب دیں
پلیز
میں اپنی راہ درمیان میں کھوٹی ہوتے نہیں دیکھ سکتا
 

نایاب

لائبریرین
نہ حضور نہ
آپ ہماری غالب والی رگ نہ ہی چھیڑیں تو بہتر ہے
کیونکہ میری ساری زندگی کی کمائی صرف یہی ہے
باقی آپ جانیں ، وہ ہمارا مسئلہ نہیں
میرے محترم بھائی
آپ اک زندگی کی بات کرتے ہیں ۔
اگر کسی کے پاس سات زندگیاں بھی ہوں اور وہ کلام غالب میں محو رہے
توبھی وہ "غالب " کی "ب " تک پہنچنے میں عاجز رہے گا ۔
کم از کم سات صدیاں گزریں گی تو کلام غالب پر کوئی غالب آئے گا ۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میرے محترم بھائی
آپ نے کہاوت بہت اچھی لکھی ہے ۔
مسافر نے یہ تو دیکھا کہ کسان کہہ رہا ہے ۔
کسان یہاں کا رہائیشی اور علاقے کا واقف ہے ۔ سو جو کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہوگا ۔
گٹے گٹے کہہ رہا تو زیادہ سے زیادہ گھٹنوں تک ہوگا پانی ۔
مگر جب ڈوبنے لگا تو پھر کسان پر زبان دراز کرنے لگا ۔
اگر یہی مسافر کسان کے جواب کو ناکافی سمجھتے مزید سوال کرتا تو
کسان اسے بتاتا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اک بطخ نے دریا پار کیا ہے ۔
تو مسافر یہ دیکھے بنا کہ کون کہہ رہا ہے ۔ کیا کہہ رہا کو سمجھتا تو وہ جان جاتا کہ
کسان کی نظر میں بطخ اور انسان برابر ہیں ۔
یہی مسئلہ آ رہا ہے
اسی لیے میں نے یہ مثل پیش کی ہے
مگر جب ڈوبنے لگا تو پھر کسان پر زبان دراز کرنے لگا
فریاد کرنے کو زبان درازی تو نہ کہیں نایاب سائیں
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میرے محترم بھائی
آپ اک زندگی کی بات کرتے ہیں ۔
اگر کسی کے پاس سات زندگیاں بھی ہوں اور وہ کلام غالب میں محو رہے
توبھی وہ "غالب " کی "ب " تک پہنچنے میں عاجز رہے گا ۔
کم از کم سات صدیاں گزریں گی تو کلام غالب پر کوئی غالب آئے گا ۔
یہ آپ کس قسم کی باتین کرنے لگے اچانک
وہ پہلے والا نایاب کدھر ہے؟
ہمیں یہ والا نایاب نہیں چاہیے
 

نایاب

لائبریرین
حضور اعلی یہ ایک دوستانہ گفتگو ہے
جس میں آپ ہیں اور میں ہیں فی الحال کوئی تیسرا نہیں
ابھی جاری رکھیں
جب کوئی انجان شامل ہوا تو میں کود بخود کان لپیٹ کے سائیڈ پہ ہو جاؤں گا
خوامخواہ ٹچی نہ ہوں ، میرا ہر گز کوئی ایسا مطلب نہیں تھا
میں ہاتھ جوڑتا ہوں سرکار نارض مت ہوں ، اور گفتگو کو جاری رکھیں
اور اس سوا ل کا آئیں بائین شائیں کی بجائے پراپر جواب دیں
پلیز
میں اپنی راہ درمیان میں کھوٹی ہوتے نہیں دیکھ سکتا
میرے محترم بھائی
جہاں دو ہوں وہاں تیسرا وہ ہوتا ہے جو کہ آج ہی میرے پاس تیس دن کی قید کاٹ کر آیا ہے ۔
کوئی ناراضگی نہیں کہ ناراضگی ہم سے دور رہتی ہے بہت دور
تحریری گفتگو کا یہ نقصان بہت ہوتا ہے کہ
دوران گفتگو ہم اک دوسرے کے تاثرات سے بے خبر رہتے ہیں ۔،
اور محرم لاکھ چلائے مجرم ہی ٹھہرتا ہے ۔
اور آپ " اینویں لڑن بہانے ڈھونڈنا " گنگنانے لگتے ہیں
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
نایاب بھائی چلیے کسی اور دھاگے میں تھواڑا فریش ہو لیتے ہیں
ابھی آپ واقعی موڈ میں نہیں ہیں
سوری میں نے آپ کو بے جا تنگ کیا
آپ بڑے ہیں، آپ کا تجربہ اور علم مجھ سے بہت زیادہ ہے
مگر چھوٹا غالبؔ ہونے کیلئے یہ سب لوازمات پورے کرنے ہوتے ہیں(میری مجبوری سمجھنے کی کوشش کریں)
 
اوپر محمود احمد غزنوی صاحب نے کیا معرکہ کا شعر لکھا ہے
بوعلی اندر غبارِ ناقہ گم۔۔۔
دستِ رومی پردہِ محمل گرفت
چھوٹا غالب صرف کمپیوٹرہارڈ ویئر کا ٹارزن نہیں ہے بلکہ فلسفہ کا ٹارزن بھی ہے۔ خوشی ہوئی اویس کی باتیں سن کر بہرحال روحانی بابا خوش ہوئے۔
جرمنی کے ماہر فلکیات اور ریاضی دان Keplerجنہوں نے سیاروں کی حرکات کے ۳ قواعد مقررکیئے ہیں جن پر اب تک ہر مُہَندِس کا عمل ہے ان کی اعلیٰ ترین خواہش جواَب بھی ہر صوفی کی اعلیٰ ترین خواہش ہے کہ وہ اپنے میں اس اللہ کو پالے جس کو وہ ہر وقت ہر جگہ خارج میں پاتا ہے یعنی باالفاظ دیگر اپنے آپ کو پالے اس بات کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کو اس کے مرشد نے پانا کیا ہے سمجھا دیا ہو۔​
نایاب بھائی سر الٰہی جس قدر انسان میں ظاہر ہوا ہےاور کسی چیز میں ظاہر نہیں ہوا کیونکہ اور موجودات میں اُس نور سے جو کچھپہنچا ہے وہ محض اُس کا اثر یا عکس تھا اور انسان میں خاص وہ نور خود جلوہگر ہوا ہے اور مصباح کا تیل بن کر اُس نے اندھیرے گھر کو روشن کردیا یہیوجہ ہے جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو خطاب کیا کرمنا یا بنی آدماوراسی وجہ سے کل مخلوقات پر اُس کو فضیلت دی۔
خواہم از عشق داستاں بیان گوئمسر یار نہاں عیاں گوئماولیاء کا شروع سے ہی دستوررہا ہے کہ وہ راز کی بات کو تماثیل اور اشارات میں بیان کرتے ہیں اسی مقصدکے لیئے کبھی منطق الطیر تو کبھی گلشن راز جیسی مثنویاں منصہ شہود پر جلوہگر ہوتی ہیں۔ تو کبھی شاہ شمس تبریز اعلانیہ اصل بات بیان کردیتے ہیں
منطق الطیر
منطق الطیر خواجہ فرید الدینعطار رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی تحریر کردہ ایک تمثیلی مثنوی ہے جس میں چارہزار چھ سو اشعار ہیں مثنوی کا آغاز اللہ تبارک تعالیٰ کی حمد و ثناء،رسولکریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہاجمعین کی منقبت سے کیا گیا ہے ۔ مثنوی میں 45مقالے ہیں آخر میں ایک خاتمہہے ۔مضمون پرندوں کے اجتماع سے شروع ہوتا ہے آپ پرندوں کا خیال بیان کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ پرندوں(انسانوں) کے خیال میں کوئی ملک بادشاہ کےبغیر خوشحال نہیں رہ سکتا ہے اور وہ اپنا بادشاہ سیمرغ (حق)کو خیال کرتےہیں اور اسے تلاش کرنے کے لیئے تمام پرندے ہد ہد کی(راہ نما ،پیامبر، خضرراہ) رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔ہد ہد(مرشدِ کامل ) وعدہ کرتا ہے کہ وہ انھیںسیمرغ تک پہنچا دے گا شرط یہ ہے کہ وہ راستے کی صعوبتیں برداشت کرنے کی ہمترکھتے ہوں ان پرندوں میں 30پرندے ایسے ہوتے ہیں جن کی طلب صادق ہوتی ہے جنکو سالک کہا جاتا ہے سالک جو صعوبتیں برداشت کرتے ہیں وہ دراصل عارفوں کیریاضتیں ہیں۔راہ سلوک میں سالک کی سات وادیاں(بمعنی منازل)ہوتی ہیں ۔پہلی منزل کا(وادی) نام طلب و جستجوہے جب تک کوئی سالک اپنے اندر طلب پیدا نہ کرے گا وہ کمال کی راہ پر گامزننہیں ہوسکتا ہے ۔بہت سارے پرندے ادھر سے ہی واپس ہوجاتے ہیں ۔کیونکہ وہاپنے اندر طلب و جستجو کا مادہ نہیں پاتے ہیں ۔حضرت ابوبکر واسطی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ۔اس میں تین چیزیں بہرصورت ہونی چاہیے ہیں اس کو نیند پر غلبہ ہو ۔اس کا کھانا فاقہ ہو۔اس کی گفتگو ضرورت کے مطابق ہو۔یعنی کم خوردن،کم گفتن،کم خفتن(قلت طعام،قلت کلام،قلت منام)(کم کھانا،کم بولنا،کم سونا)جدوجہد این جااست بایدسالہا
زآنکہ این جا قلب گردد سالہا
مال این جا بایدت انداختن!
ملک این جا بایدت در باختن
دوسری منزل کا(وادی) نام عشق ہے اس کےلیے سالک کو منزل مقصود سے اتنی دل بستگی ہو یعنی ارادہ اتنا قوی و پختہ ہوکہ راہِ طریقت میں بلا اندیشہ نکل کھڑا ہواور راستہ کی تکالیف اور مصائبکو خاطر میں نہ لائے۔اس منزل پر بہت سارے پرندے آکر رک جاتے ہیں اور بہت سارے راستے میں ہی ہلاکہوجاتے ہیں کیونکہ ان کا مادہ ان مصائب اور سختیوں کا متحمل نہیں ہوتا ہے ۔
بعد ازآں وادی عشق آمد پدید
غرق آتش شد کسی کانجا رسید
کس دریں وادی بجز آتش مباد
وآنکہ آتش نیست عیشش خوش مباد
عاشق آں باشد کہ چون آتش بود
گرم روسو زندہ و سرکش بود!
عاقبت اندیش نبود یکزماں!
غرق در آتش چون آن برق جہاں
تیسری منزل کا(وادی) نام معرفت ہےاور یہ ہر سالک کی عقل و استعداد کے مطابق ہوتی ہے یعنی جیسا اس کا مادہہوگا بعینہ معرفت ہوگی۔اس منزل پر آکر بہت ساری باتوں کی معرفت حاصل ہوتیہے ۔علوم و فنون کی حقیقت منکشف ہوتی ہے اور بہت سارے ادھر ہی مشغول ہوجاتےہیں ۔ہیچ رہ دردی نہ چون آن دیگر است
سالک تن مالک جاںدیگر است
لاجرم بس رہ کہ پیش آید پدیدہریکی برحد خویش آید پدیدسیر ہر کس تاکمال او بودقرب ہر کس حسب حال او بودمعرفت ایں جا تفاوت یافتہایں یکی محراب و آں بت یافتہصد ہزاراں مرد گم کردد مدام!تا یکے اسرار بین گرد تمامہست دائم سلطنت در معرفتجہد کن تا حاصل آید ایں صفت
چوتھی منزل کا(وادی) نام استغناءہے اسوادی میں دنیا و مافیا سے بے نیاز سالک داخل ہوتا ہے خواہشات دنیا کا اسیرشخص اس وادی میں داخل نہیں ہوسکتا ہے ۔کیونکہ یہ سالک بلند نظر ہوتا اوراس کو نظر آتا ہے کہ یہ سب اعتبارات ہیں جن کو عوام الناس حقیقت سمجھ رہےہیں اس کی نظر میں دنیا اس نقش کی مانند ہے جس کو صحرا کی ریت پر لکھا جاتاہے اور پھر ہوا کے بگولے اس کو مٹا دیتے ہیں ۔اس مقام پر بہت سارے مستقل رہائش اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ میںآگے جانے کی استطاعت نہیں پاتے ہیں ۔یہ مقام جذب ہے اس مقام کا بندہ اٹھارہہزار عالم کا اپنے ناخن پر مشاہدہ کرتا ہے ۔اورایسا بندہ کی حرکات و سکناتپر غور کیا جائے تو وہ ہر قدم بہت پھونک پھونک کر لیتا ہے کیونکہ دنیا اسکو ایک فٹبال کی مانند دکھتی ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ اگر ایک قدم اورآگے بڑھایا تونیچے گر جائے گا۔مزید جاننے کے لیئے دیکھو حاجی شریف زندنی کےواقعات جو کہ حضرت عثمان ہارونی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے مرشد تھے اورموخر الذکر حضرت خواجہ خوجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہالعزیز کے مرشد ہیں ۔دیدہ باشی کان حکم پرخردتختہ خاک آورد درپیش خودپس کند آں تختہ و پرنقش ونگارثابت و سیارآرد آشکارہم ملک آرد پدید وہم زمیںگہ برآں حکمی کند گاہی بریںہم نجوم وہم بروج آرد پدیدہم افول و ہم عروج آردپدیدہم نحوست ہم سعادت برکشدخانہموت و ولادت برکشدچوں حساب نحس گردد سعد از آگوشہ آں تختہ گیر د بعد از آںبرفشاند گوئی آن ہرگز نبودآں ہمہ نقش و نشاں ہرگز نبودصورت ایں عالم پر پیچ پیچہست ہمچوں صورت تختہ ہیچ
پانچویں منزل کا(وادی) نام توحید ہے اسمقام پر سالک کو کثرت میں وحدت نظر آتی ہے وہ ہر شئے میں تجلیات اسماءکامشاہدہ کرتا ہے ۔من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے ۔بہت سارے اسی مقام پر آکر رک جاتے ہیں اور مستقل رہائش اختیار کرلیتے ہیں ۔چوں یکی باشد ہمی نبود دوئی!ہم منی برخیزد این جا ہم توئی! چشم بینا جس جگہ اور جس شخص کو دیکھتی ہے وہ اس کی حقیقت یعنی خدا کو دیکھتی ہےرفت پیش بو علی آں پیرزنکاغذ زبرد کایں بستان زمنشیخ گفتا عہد دارم من کہ نیزجزز حق نستانم از کس ہیچ چیزپیرز ن در حال گفتا بوعلی!از کجا آوردی آخر احولیمرد راہ در دیدہ این جا غیرنیستکعبہ را ضدیتی باد یر نیست
چھٹی منزل کا(وادی) نام بے خودی(مقامحیرت بھی کہتے ہیں ) ہے اس مقام پر آکر سالک کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی ساریمعلومات محدود تھیں اور وہ محض لاعلم تھا تو وہ مبہوت ہوجاتا ہے یہاں تک کہاپنی ہستی تک سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے ۔دیوانگی میں حد سے گزر جانا چاہیےلیکن کبھی کبھی تو گھر آنا چاہیےمرد حیران چون رسد ایں جایگاہدر تحیر ماندہ گم کردہ راہگم شود در اہ حیرت محووماتبے خبر از بود خود و زکائناتہر کہ زد توحید برجا نش رقمجملہ گرد و کم از و اونیزہمگربدوگویندہستی یا نہ ایسربلندعالمی پستی کہ ایدرمیانی یا برونی از میاںبرکناری یا نہانی یا عیاںفانئی یا باقی یا دوئیہر دوئی یا تو نہ ای یا نہ توئیگوید اصلامی ندانم چیز مندین ندانم ہم ندانم نیز من
ساتویں منزل کا(وادی) نام فنا ہے۔یہاں پر سالک فنا کے بعد بقا پاتا ہے اور واصل بحق ہوجاتا ہے ۔ہر کہ دریای کل گم بودہ شددائما گم بودہ و آسودہ شدگر تو ہستی راہ بین و دیدہ ور!موی در موی ایں چنیں اندر نگرہر کہ او رفت ازمیاں انیک فناچوں فنا گشت ارفنا انیک بقاخواجہ فرید الدین عطار رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مقام پر صرف 30پرندے پہنچتے ہیں اور وہ سیمرغ کو پالیتے ہیں ۔یعنی اپنی حقیقت کوپالیتے ہیں ۔کیونکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ سیمرغ اور ان میں کوئی فرق نہیںہے۔(من عرفہ نفسہ فقد عرف ربہ)جس نے اپنے نفس کو جانا اُسنے اپنے رب کوجانا)الحدیثہم زعکس روی سیمرغ جہاںچہرہ سیمرغ دیدند آں زماںچوں نگہ کردند ایں سیمرغ زودبےشک ایں سی مرغ آں سیمرغ بودکشف ایں سر قوی درخواستندحل مائی و توی درخواستندبی زباں آمد از آنحضرت جوابکاینہ است آنحضرت چوں آفتابہر کہ آید خویشتن بینددراوجان و تن ہم جان و تن بیند در او
مثنوی گلشن راز کو ادھر چیک کریں​
شغال و مراقبات /تصوف و روحانیت /انسانی نفسیات وطبیعات کی مابعد نفسیاتی و طبیعاتی تشریح پر میرا ایک اور تھریڈ ہے اس کو ادھر چیک کریں​
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
بہت زبردست، نہایت عمدہ، بے حد اعلیٰ
یہ پرندوں کا سیمرغ ڈھونڈنے جانے کا قصہ بانو قدسیہ صاحبہ کے ناول "راجہ گدھ" میں بھی پڑھا تھا
مگر آج اوریجنل چیز پڑھ کے مزہ دوبالا ہو گیا
جزاک اللہ بابا جی
آپ کی ذرہ نوازی ہے، میں تو بس صاحبانِ کمال کا کاسہ لیس ہوں
ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کا فیض ہے ورنہ ہم کہاں کے دانا تھے
 
بہت زبردست، نہایت عمدہ، بے حد اعلیٰ
یہ پرندوں کا سیمرغ ڈھونڈنے جانے کا قصہ بانو قدسیہ صاحبہ کے ناول "راجہ گدھ" میں بھی پڑھا تھا
مگر آج اوریجنل چیز پڑھ کے مزہ دوبالا ہو گیا
جزاک اللہ بابا جی
آپ کی ذرہ نوازی ہے، میں تو بس صاحبانِ کمال کا کاسہ لیس ہوں
ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کا فیض ہے ورنہ ہم کہاں کے دانا تھے
آپ کی مجھے ایک بات پسند آئی ہے اور وہ ہے دلیل سے بات کرنا۔۔۔۔بلاشک و شبہ آپ میں مدلل گفتگو کا بہت ملکہ پایا جاتا ہے۔۔۔روحانی بابا خوش ہوئے۔
گلشن راز والے تھریڈ کو آپ نے پڑھا ہے ؟؟؟؟اوپر لنک دیا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
میرے محترم بھائی
بہت اچھی معلومات سے نوازنے پر ازحد شکریہ
روح " امر اللہ " ہے اور کن سے الگ " نفخ " سےمربوط ٹھہرتے اس روح کا حامل
چرند پرند و دیگر حیوانات سے ممتاز ہوتے اللہ کا نائب قرار پایا ہے ۔
اس روح کی پرواز جو کہ غوروفکر پر قائم ہے ۔ اس غوروفکر کو قران پاک میں کھلے طور " قصائص انبیاء علیہ السلام " سے واضح فرما دیا ہے ۔
جو روح بھی سچی طلب سے اپنی حقیقت بارے "حق الیقین " کی طالب ہو گی ۔ وہ حق کو جان جائے گی ۔
منطق الطیر خواجہ فرید الدین عطار رحمة اللہ علیہ بھی مطالعہ قران پاک سے مشرف ہوتے
اس کے بیانات پر غور فرماتے ان نئے جہانوں سے آگاہ ہوئے ۔
جنہیں منازل کے نام سے انہوں نے بصورت مثنوی منظوم کیا ۔
اور یہ مثنوی ان کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے ۔
یہ ضروری نہیں کہ ہر سالک اک جیسے ہی مشاہدے کا حامل قرار پائے ۔
قصہ حضرت ابراہیم علیہ السلام
اور قصہ حضرت موسی علیہ السلام
اس کی دلیل ہے ۔
جو جیسی کوشش کرتا ہے ویسا ہی پھل پاتا ہے ۔
تصوف کی صاف سیدھی سچی راہ آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اسوہ پاک سے روشن کر دی ہے ۔
اور راہ سلوک پر سفر کرنے والے ہر سالک کے اس اسوہ حسنہ کا اتباع خود " حق " نے ٹھہرا دیا ۔
تصوف اخلاق و انصاف کے ہمراہ خدمت انسانی میں مصروف رہتے اس حق کا ذکر کرنا ہے ۔ جو شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔
جب کوئی صوفی اس عمل میں خالصیت اختیار کر لیتا ہے ۔ تو حق اس کے سامنے پوری معنویت سے اہر ہوجاتا ہے ۔
اور پھر اس کی نماز ایسے ہوتی ہے جیسے کہ وہ حق کو اپنی نگاہ سے دیکھ اس کی بارگاہ میں جھکا ہے ۔
 
سات مرتبہ میں نے اپنی روح کو حقیر جانا:
  • پہلی مرتبہ اس وقت جب میں نے دیکھا وہ بلندیوں میں پرواز کرنا چاہتی تھی لیکن وہ بہت مسکین اور عاجز نظر آتی تھی۔
  • دوسری مرتبہ اس وقت جب میں نے دیکھا وہ اپاہج کے سامنے لنگڑا کر چل رہی ہے ۔
  • تیسری مرتبہ اس وقت جب روح کو رنج و غم اور عیش و آرام میں سے ایک چیز کو منتخب کرنے کا موقع دیا گیا اور میں نے دیکھا کہ اس نے عیش و آرام کو منتخب کرلیا۔
  • چوتھی مرتبہ میں نے روح کو اس وقت حقیر جانا جب اس نے ایک غلط کام کیا اور جواب طلبی پر یہ کہا کہ دوسرے لوگ بھی تو غلط کام کرتے ہیں مجھ سے غلطی ہوگئی تو کیا ہوا۔
  • پانچویں مرتبہ اس وقت حقیر جانا جب وہ اپنی کمزوری پر قانع ہو کر بیٹھ گئی اور اس صبر و تحمل کو ذاتی قوت پر محمول کرنے لگی۔
  • چھٹی مرتبہ اس وقت حقیر جانا جب اس نے ایک بد صورت چہرے کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور وہ یہ نہ جانتی تھی کہ یہ بد صورتی بھی تو اس کا اپنا ہی بہروپ تھا ۔
ساتویں مرتبہ میں نے اپنی روح کو اس وقت حقیر جانا جب وہ اپنی تعریف میں نغمے گانے لگی اور اسے نیکی اور خوش خلقی کی نشانی سمجھنے لگی۔

خلیل جبران
کبھی کبھی مجازاّ نفس کو بھی روح کہہ دیا جاتا ہے، شائد یہا ں بھی مراد نفس ہی ہے، اگرچہ لفظ روح استعمال کیا گیا ہے۔۔۔
 
Top