نصیر الدین نصیر تضمینات بر کلام حضرت رضا بریلوی - سید نصیر الدین نصیر

الف نظامی

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تضمینات
برکلام حضرت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
از شاعر ہفت زباں علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گولڑوی

پیش گفتار
ڈاکٹر توصیف تبسم (بدایونی)
اسلام آباد 3 ربیع الاول 1426 ھجری​
پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کی ان تضمینوں پر جو حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کے کلام پر کی گئی ہیں، گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ تضمین کے حدود و مطالب و معانی پر غور کرلیا جائے تاکہ بات چیت زیادہ مربوط اور بامعنی انداز میں آگے بڑھ سکے۔ تضمین کے لغوی معنی ، قبول کرنا اور پناہ میں لینے کے ہیں، تضمین کا لفظ ضم سے مشتق ہے جس کے معنی ملانا یا پیوست کرنا ہیں۔ اصطلاح میں ، تضمین کسی دوسرے شاعر کے کسی شعر یا مصرع کو اپنے کلام میں شامل کرنے کا نام ہے۔ اگر وہ شعر یا مصرع جس کی تضمین کی جائے معروف اور جانا پہچانا نہ ہو تو سرقہ یا توارد کے الزام سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس امر کی طرف اشارہ کردیا جائے کہ یہ شعر یہ مصرع میرا نہیں، کسی اور شاعر کا ہے،
جیسے سودا کہتے ہیں
میں کیا کہوں کہ کون ہوں سودا، بقول درد
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں ، غرض آفت رسیدہ ہوں
تضمین کی ایک صورت تو یہ ہے کہ تضمین لکھنے والا شاعر کسی خاص مصرع یا شعر کو بنیاد بنا کر پوری نظم تخلیق کرتا ہے۔ اقبال کے یہاں اس قسم کی تضمینوں کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے بانگ درا میں ابوطالب کلیم ، صائب ، انیسی شاملو کے شعروں کو اسی طرح جزوکلام بنایا ہے۔ دوسری صورت تضمین کی یہ ہے کہ پوری غزل کو شعر بہ شعر تضمین کیا جائے ، یوں اصل غزل کی ہیئت تضمین ہونے کے بعد مخمس کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ تضمین کا بنیادی فریضہ اصل شعر کی شرع و تفسیر ہوتا ہے مگر بعض صورتوں میں تضمین کرنے والا شاعت کسی شعر کو نئے سیاق و سباق میں رکھ کر اس کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے، جیسے مولٰنا غنی کاشمیری کا شعر، جس کی تضمین اقبال نے اپنی نظم "خطاب بہ نوجوانان اسلام" میں کی ہے
غنی ، روزِ سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
اقبال نے غنی کے اس شعر کو ایک نئی معنویت سے ہم کنار کیا ہے۔ یہاں "پیر کنعاں" سے مراد ملتِ اسلامیہ ، حضرت یوسف سے مراد مسلمانوں کا علمی سرمایہ ہے جو اہل یورپ(زلیخا) کی آنکھوں کی روسنی کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ تضمین کی اکثر و بیشتر صورتوں میں اصل شعر کی تشریح و تفسیر ہی ہوتی ہے۔ تضمین کے اس بنیادی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مرزا عزیز بیگ سہارن پوری نے غالب کی اردو غزلیات کی تضمین سعوری طور پر اس انداز سے کی ہے کہ کلام غالب کو ایک عام قاری کے لیے آسان بنایا جاسکے۔ ان کی اس منظوم تشریح کا نام "روحِ کلام غالب" ہے۔ اس تضمینِ کلام غالب کی تعریف کرتے ہوئے نظامی بدایونی لکھتے ہیں:
"اس کی ادنی خصوصیت یہ ہے کہ مشکل ترین اشعار کے معانی اور مطالب اس درجہ واضح ہوجاتے ہیں کہ کسی شرح کےدیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی"
حضرت مولانا احمد رضا خان کے کلام کے حوالے سے جب ہم پیر سید نصیر الدین نصیر کی تضمینوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ان کی یہ کاوشیں جن میں آٹھ نعتیں ، ایک منقبت اور ایک سلام شامل ہے ، تضمین کے اصل مقصد کو بطریق احسن پورا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اصل شعر جس پر شاعر تین اضافی مصرعے بہم پچاتا ہے۔ ان مطالب کو کھول کر بیان کردیتے ہیں جن کی طرف اصل شعر میں مبہم اشارے موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح تضمین کا ہر بند ایک ایسی وحدت کی شکل اختیار کرلیتا ہے جو اپنی جگہ مکمل اور حد درجہ مربوط ہوتی ہے۔ تضمین کی اس خصوصیت کی طرف علامہ نیاز فتح پوری اپنی تصنیف انتقادیات (ص 283) میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
"تضمین کی خوبی یہ ہے کہ وہ اصل شعر کے ساتھ مل کر بالکل ایک چیز ہو جائے"
نصیر الدین نصیر کی تضمین کا ایک بند بطورِ مثال
دل کے آنگن میں یہ اک چاند سا اترا کیا ہے
موج زن آنکھوں میں یہ نور کا دریا کیا ہے
ماجرا کیا ہے یہ آخر ، یہ معما کیا ہے
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدہ حیرت زدہ تکتا کیا ہے

اصل شعر میں جو تحیر کا عنصر تھا ، اس کو باکمال تضمین نگار نے اس طرھ پورے بند میں پھیلا دیا ہے کہ سارے مصرعے مل کر ایک پُرلطف فضا کی تشکیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،
ایک اور بند دیکھیے
جب چلے حشر کے میدان میں امت کی سپاہ
سرور جیش ہو وہ مطلع کونین کا ماہ
اہل بیت اور صحابہ بھی رواں ہوں ہمراہ
یہ سماں دیکھ کہ محشر میں اٹھے شور کہ واہ
چشم بد ور ہو ، کیا شان ہے رتبہ کیا ہے

ان بندوں میں جزئیات و واقعات کی ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ ایک متحرک تصویر چشمِ تصور کے سامنے آجاتی ہے۔ شاعری کا یہ وہ مقام ہے جہاں شعر مصوری کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی گئیں ورنہ یہ کیفیت ان تضمینوں میں کم و بیش ہر جگہ موجود ہے۔ زور بیاں ہے کہ کہیں کم نہیں ہونے پاتا جس سے پیر نصیر الدین نصیر کی قدرت کلام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وہ ایک مدت سے اردو اور فارسی میں داد سخن دے رہے ہیں۔ اب تک ان کے متعدد مجموعہ ہائے کلام زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں۔ خصوصا انہوں نے اردو اور فارسی میں صنف رباعی کو جس قرینے اور سلیقے سے برتا ہے اس کی نظیر آج کے دور میں مشکل ہی سے ملے گی۔ رباعی اپنی فنی قیود ، خاص بحور اور دوسرے التزامات کے سبب ایک مشکل ترین صنف سمجھی جاتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر اس صنف پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتا ہے۔ نصیر الدین نصیر نے جو ریاضت رباعی کے میدان میں کی ، اس نے ان کے تضمین کے فن کو ان کے لیے آسان بنا دیا۔ جیسے رباعی کے چار مصرعوں میں بتدریج ایک ارتقائی کیفیت اس کے حسن کا باعث ہوتی ہے ، یہی صورت حال ان کی تضمین کے پر بند مٰیں‌موجود ہے۔ نصیر الدین نصیر کی عربی اور فارسی کی بنیاد حد درجہ مستحکم ہے۔ اسی لیے وہ تضمین کرتے ہوئے ، ان مشکل مقامات سے با آسانی گزر جاتے ہیں جہاں دوسرے شاعروں کے پاوں لڑکھڑا جائیں۔
صوم و صلوۃ ہیں کہ سجود و رکوع ہیں
ہر چند شرع میں یہ اہم الوقوع ہیں
حبِ نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیں
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

تضمین کے لغوی معانی پر اگر غور کرلیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس شاعر کا کلام ، تضمین کے لیے منتخب کیا جاتا ہے ، دراصل ایک طرف تو اس خاص شاعر سے یہ اظہار عقیدت کی صورت ہے تو دوسری طرف تضمین کرنے والے شاعر کی اثر پذیر طبیعت کا ثبوت بھی ہے۔ نصیر میاں نے بھی ، حضرت مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کی نعت ، منقبت اور سلام کا انتخاب ، تضمین کے لیے کر کے ایک طرح ان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ورنہ وہ یہ کبھی نہ کہتے
اہل نظر میں تیرا ذہن رسا مسلم
دنیائے علم و فن میں تیری جا مسلم
نزد نصیر تیری طرزِ نوا مسلم
ملک سخن کی شاہی تجھ کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں

پیر سید نصیر الدین نصیر کو نعتیہ تضمین کرتے ہوئے ، دوسرے عام شاعروں کے مقابلہ میں ایک یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ وہ اعلی حضرت سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوہ قدس سرہ کے خانوادہ سے ہیں ، یوں وہ دوسرے نعت گو شعراء کے مقابلہ میں حمد و ثنا کی اسی مقدس فضا میں سانس لے رہے ہیں ، جو حضرت فاضل بریلوی کو میسر تھی۔
شعر کے معانی و مطالب کے پہلو بہ پہلو ، اس کا دوسرا جزو زبان و بیان سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت احمد رضا خان ، اردو زبان کے ایک ایسے مرکز U-p سے متعلق تھے ، جو شعر میں حسن محاورہ اور لطف روزمرہ کا قائل تھا۔ اسی لیے ان کی نعتوں میں زبان و بیان کی ایک خاص چاشنی ملتی ہے۔ پیر سید نصیر الدین نصیر بھی اپنی ان تضمینوں میں ، اصل نعت کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے ، اسی زبان و بیان سے کام لیتے ہیں ، جو اس کا اولین تقاضا تھی۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اردو زبان و ادب سے کے مراکز سے دور ، گولڑہ شریف میں رہ کر انہوں نے اس زبان کو کیسے سیکھا ،ان کا ایک اور بند دیکھیے:
سر پر سجا کے حمد و ثنا کی کی گھڑولیاں
وہ عاشقوں کی بھیڑ ، وہ لہجے ، وہ بولیاں
جالی کے سامنے وہ فقیروں کی ٹولیاں
لب وا ہیں ، آنکھیں بند ہیں ، پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی کی بھیک ، ترے پاک در کی ہے

امید واثق ہے کہ یہ نعتیہ تضمین ، صاحبان دل کے حلقوں میں ذوق و شوق سے پڑھی جائیں گی اور اپنی روحانیت اور اعلی شعری خصوصیات کے سبب دربارِ بقا میں جگہ پائیں گی۔

ڈاکٹر توصیف تبسم
اسلام آباد
3 ربیع الاول 1426 ھ
 

الف نظامی

لائبریرین
حرف گفتنی
یہ بات طے ہے کہ بیان کا جادو دل لوٹ لیتا ہے ، وہ شعر کی صورت میں ہو یا تحریر و تقریر کی صورت میں۔ و علمہ البیان [اور اس رحمن نے (انسان کو) بیان سکھایا] کی قرآنی نص اور ان من البیان لسحرا [ یقینا بعض بیان جادو ہوتے ہیں ] کی حدیث مبارک اس پر شاہد ہے۔ اس وقت میں اپنی مطالعاتی معلومات اور ادبی خدمات کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ، صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ بحمدہ تعالی علوم دینیہ سے میرے طبعی میلان اور فنون لطیفہ سے میری فطری رغبت نے مجھے بہت کچھ عطا کیا۔ چناچہ تحدیث نعمت کے تحت میں نے کہا تھا

نہ پوچھو کہ کیا کچھ دے دیا ہے دینے والے نے
بڑا ہو لاکھ کوئی ہم کسی کو کیا سمجھتے ہیں

کلام انسان کی خداداد صلاحیتوں کا ترجمان ہوتا ہے ، جب اس حوالے سے بھی حضرت مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی ذاتِ ستودہ صفات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں وہ ایک بلند ترین مقام پر جلوہ فرما نظر آتے ہیں۔ یہاں پر نہ تو میں کسی قسم کی خوشامد سے کام لے رہا ہوں ، نہ محض اندھی عقیدت اور نہ بے جا تعریف سے۔ بلکہ علم و ادب کے ناتے ایک مبنی بر حقیقت بات کر رہا ہوں۔ عام طور پر لوگ موصوف کو محض ایک فقیہہ یا عالم دین کی حیثیت سے جانتے ہیں ، ان کا یہ رتبہ اپنی جگہ مسلم ، مگر شعر و ادب میں بھی ان کا پایہ بہت بلند ہے ، جس سے کم حضرات واقف ہیں۔ دینی مجالس میں ان کے کلام کو سرسری انداز میں پیش کردینا اور بات ہے ، مگر اس کے معانی و مطالب کی غیر معمولی گہرائیوں ، اثر آفرینیوں اور اس کے فنی محاسن کو سمجھنا بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔ ان کے کلام بلاغت نظام سے کماحقہ محظوظ ہونے کے لیے علم وافر ، استعداد کامل ، غیر معمولی ذہانت ،تنہائی ، ذوقِ مطالعہ اور پھر عشق رسول کی دولت بھی درکار ہے۔
فاضل بریلوی کے کلام پر تضمین نگاری کوئی آسان کام نہیں ، کیوں کہ اس کے لیے زبان و بیان پر قدرت ، اوزانِ شعر پر دسترس ، بلندی فکر ، جذبات کی وارفتگی ، عقیدت کا والہانہ پن ، الفاظ کا رکھ رکھاو ، یو پی کی زبان کا لطف ، رعایت لفظی ، ربط معنوی ، روزمرہ اور محاورات کا بر محل استعمال اور بندشِ چست کے لوازم کا یکجا ہونا بھی ضروری امر ہے۔
جب میں نے تضمین نگاری کا عمل شروع کیا تو مجھے مذکورہ لوازم سے عہدہ برا ہونا ذرا مشکل نظر آیا ، تاہم اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے اور رسالت مآب علیہ السلام کی نسبتِ جلیلہ کا وسیلہ پکڑتے ہوئے اس کام کا آغاز کردیا۔ اب میں اس سلسلے میں کہاں تک کامیاب ہوسکا ، اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا یا پھر عشاقِ رسول۔
تضمین نگاری کے حوالے سے یہاں ایک دو باتوں کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ اسے اصطلاحِ فن میں مخمس یا خمسہ بھی کہتے ہیں۔ یہ بند پانچ مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے تین مصرعے تضمین نگار کے ہوتے ہیں ، جبکہ چوتھا اور پانچواں مصرعہ اس شاعر کے کلام کا ہوتا ہے ، جس پر تضمین کہی جارہی ہو۔ مزید لطف اٹھانے کی صورت یہ ہے کہ پہلے اصل شعر پڑھ لیا جائے اور پھر اس پر تضمین کے تین مصرعے پڑھ لیے جائیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے علمی دلائل سے عقائد باطلہ کا رد بھی فرمایا ہے۔ اس لیے میں نے تضمین میں ان امور کو بھی پیش نظر رکھا ہے بلکہ بعض مقامات پر تو یہ عمل نوک جھوک کی صورت بھی اختیار کر گیا۔ جو میرے نزدیک فکرِ رضا کے عین مطابق ہے۔ قارئین کی سہولت کے لیے ہر صفحہ پر بعض مشکل الفاظ کے معانی بھی لکھ دئیے گئے ہیں۔
آخر میں اعتراف عجز کرتے ہوئے اپنے باذوق قارئین کو اپنے اور حضرت فاضل بریلوی کے کلام کے ساتھ دربار رسالت مآب میں لیے چلتا ہوں۔
اللہ تعالی فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ اور ان جیسے اکابرِ امت کے سوزِ عشق کے طفیل میری اس کاوش کو بھی اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے (آمین)

فقیرِ کوئے رسول
نصیر الدین نصیر گولڑوی کان اللہ لہ
6 ربیع الاول 1426 ھ مطابق 16 اپریل 2005 ع
 

الف نظامی

لائبریرین
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحی تیرا
کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا
ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا
کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحٰی تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں
اور کچھ محض پیامی ہی خدا کا جانیں
اِن کی اوقات ہی کیا ہے کہ یہ اتنا جانیں
فرش والے تری عظمت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

جو تصور میں ترا پیکر زیبا دیکھیں
روئے والشمس تکیں ، مطلع سیما دیکھیں
کیوں بھلا اب وہ کسی اور کا چہرا دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

مجھ سے ناچیز پہ ہے تیری عنایت کتنی
تو نے ہر گام پہ کی میری حمایت کتنی
کیا بتاوں تری رحمت میں ہے وسعت کتنی
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

کئی پشتوں سے غلامی کا یہ رشتہ ہے بحال
یہیں طفلی و جوانی کے بِتائے مہہ و سال
اب بوڑھاپے میں خدارا ہمیں یوں در سے نہ ٹال
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

غمِ دوراں سے گھبرائیے ، کس سے کہیے
اپنی الجھن کسے بتلائیے ، کس سے کہیے
چیر کر دل کسے دکھلائیے ، کس سے کہیے
کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے ، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا

نذرِ عشاقِ نبی ہے یہ مرا حرفِ غریب
منبرِ وعظ پر لڑتے رہیں آپس میں خطیب
یہ عقیدہ رہے اللہ کرے مجھ کو نصیب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

خوگرِ قربت و دیدار پہ کیسی گزرے
کیا خبر اس کے دلِ زار پہ کیسی گزرے
ہجر میں اس ترے بیمار پہ کیسی گزرے
دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا

تجھ سے ہر چند وہ ہیں قدر و فضائل میں رفیع
کر نصیر آج مگر فکرِ رضا کی توسیع
پاس ہے اس کے شفاعت کا وسیلہ بھی وقیع
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
 

الف نظامی

لائبریرین
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
یہ وہ سچ ہے کہ جسے ایک جہاں مان گیا
در پہ آیا جو گدا ، بن کے وہ سلطان گیا
اس کے اندازِ نوازش پہ میں قربان گیا
نعمتیں بانٹا جس سمت وہ ذی شان گیا
ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمدان گیا

تجھ سے جو پھیر کے منہہ ، جانب قران گیا
سر خرو ہو کے نہ دنیا سے وہ انسان گیا
کتنے گستاخ بنے ، کتنوں کا ایمان گیا
لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا
مرے مولی ، مرے آقا ، ترے قربان گیا

محو نظارہ سرِ گنبد خضری ہی رہی
دور سے سجدہ گزارِ درِ والا ہی رہی
روبرو پا کے بھی محرومِ تماشا ہی رہی
آہ ! وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گیا

تیری چاہت کا عمل زیست کا منشور رہا
تیری دھلیز کا پھیرا ، میرا دستور رہا
یہ الگ بات کہ تو آنکھ سے مستور رہا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر وہ سر ہے جو ترے قدموں پہ قربان گیا

دوستی سے کوئی مطلب ، نہ مجھے بیر سے کام
ان کے صدقے میں کسی سے نہ پڑا خیر سے کام
ان کا شیدا ہوں ، مجھے کیا حرم و دیر سے کام
انہیں مانا ، انہیں جانا ، نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

احترامِ نبوی داخلِ عادت نہ سہی
شیرِ مادر میں اصیلوں کی نجابت نہ سہی
گھر میں آداب رسالت کی روایت نہ سہی
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

بام مقصد پر تمناوں کے زینے پہنچے
لبِ ساحل پہ نصیر ان کے سفینے پہنچے
جن کو خدمت میں بلایا تھا نبی نے ، پہنچے
جان و دل ، ہوش و خرد ، سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
 

الف نظامی

لائبریرین
شکر خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
بیٹھا ہوں رخت باندھ کے ، ساعت سحر کی ہے
رونق عجیب شہرِ بریلی میں گھر کی ہے
سب آکے پوچھتے ہیں عزیمت کدھر کی ہے
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے

شوط و طواف و سعی کے نکتے سکھا دئیے
احرام و حلق و قصر کے معنٰی بتا دئیے
رمی و وقوف و نحر کے منظر دکھا دئیے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصلِ مراد حاضری اس پاک در کی ہے

صوم و صلوۃ ہیں کہ سجود و رکوع ہیں
ہر چند شرع میں یہ اہم الوقوع ہیں
حبِ نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیں
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

جاں وار دوں یہ کام جو میرا صبا کرے
بعد از سلامِ شوق یہ پیش التجا کرے
کہتا ہے اک غلام کسی شب خدا کرے
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے

سب جوہروں میں اصل ترا جوہرِ غنا
اس دھوم کا سبب ہے تری چشمِ اعتنا
ممنون تیرے دونوں ہیں ، بانی ہو یا بِنا
ہوتے کہاں خلیل و بِنا کعبہ و مِنٰی
لولاک والے ! صاحبی سب تیرے گھر کی ہے

سر پر سجا کے حمد و ثنا کی گھڑولیاں
وہ عاشقوں کی بھیڑ ، وہ لہجے ، وہ بولیاں
جالی کے سامنے وہ فقیروں کی ٹولیاں
لب وا ہیں ، آنکھیں بند ہیں ، پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے

ہے دفترِ نسب میں یہ عزت لکھی ہوئی
قرطاسِ وقت پر ہے یہ خدمت لکھی ہوئی
پُشتوں سے گھر میں ہے یہ عبارت لکھی ہوئی
میں خانہ زادِ کہنہ ہوں ، صورت لکھی ہوئی
بندوں‌کنیزوں میں مرے مادر پدر کی ہے

ہر لمحہ آشنائے تب و تاب ہوگی آب
دنیائے آبرو میں دُرِ ناب ہوگی آب
ان کا کرم رہا تو نہ بے آب ہوگی آب
دنداں کا نعت خواں ہوں ، نہ پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مرے آبِ گہر کی ہے

دم گُھٹ رہا تھا محبسِ قالب میں بے ہوا
تھا ملتجی نصیر کہ یارب چلے ہوا
اتنے میں‌ دی سروش نے آواز ، لے ہوا
سنکی وہ دیکھ ! بادِ شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضا ترے دامانِ تر کی ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دئیے ہیں
نورِ خدا نے کیا کیا جلوے دکھا دئیے ہیں
سینے کیے ہیں روشن ، دل جگمگا دئیے ہیں
لہرا کے زلفِ مشکیں نافے لٹا دئیے ہیں
ان کی مہک نے دل کے غنچے کِھلا دئیے ہیں
جس راہ چل دئیے ہیں کوچے بسا دئیے ہیں

آنکھیں کسی نے مانگیں ، جلوا کسی نے مانگا
ذرہ کسی نے چاہا ، صحرا کسی نے مانگا
بڑھ کر ہی اُس نے پایا جتنا کسی نے مانگا
مرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دئیے ہیں ، دُر بے بہا دئیے ہیں

جس وقت رنگِ چہرہ محشر میں زرد ہوگا
دوزخ کے ڈر سے لرزاں ہر ایک فرد ہوگا
تیرے نبی کو کتنا امت کا درد ہوگا
اللہ! کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا
رو رو کے مصطفٰی نے دریا بہا دئیے ہیں

اپنے کرم سے جو دو ، اب تو تمہاری جانب
جو جی میں آئے سو دو ، اب تو تمہاری جانب
پا لو ہمیں کہ کھو دو ، اب تو تمہاری جانب
آنے دو یا ڈبو دو ، اب تو تمہاری جانب
کشتی تمہیں پہ چھوڑی ، لنگر اٹھا دئیے ہیں

لازم نہیں ہے کوئی ایسے ہی رنج میں ‌ہو
جاں پر بنی ہو یا پھر ویسے ہی رنج میں ہو
ان کا غلام چاہے جیسے ہی رنج میں ہو
ان کے نثار ، کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آگئے ہیں ، سب غم بھلا دئیے ہیں

اہلِ نظر میں تیرا ذہنِ رسا مسلم
دنیائےِ علم و فن میں ہے تیری جا مسلم
نزدِ نصیر تیری طرزِ نوا مسلم
ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
سب سے اولی و اعلی ہمارا نبی
تیرگی میں اجالا ہمارا نبی
روشنی کا حوالا ہمارا نبی
غیب داں ، کملی والا ہمارا نبی
سب سے اولی و اعلی ہمارا نبی
سب سے بالا و والا ہمارا نبی

بحر غم میں کنارا ہمارا نبی
چشم عالم کا تارا ہمارا نبی
آمنہ کا دُلارا ہمارا نبی
اپنے مولی کا پیارا ہمارا نبی
دونوں عالم کادولہا ہمارا نبی

جس کی تبلیغ سے حق نمایاں ہوا
بتکدہ جس کی آمد سے ویراں ہوا
جس کے جلووں سے ابلیس لرزاں ہوا
بزمِ آخر کا شمعِ فروزاں ہوا
نورِ اول کا جلوا ہمارا نبی

در پہ غیروں کے زحمت نہ فرمائیے
بھیک لینے مدینے چلے جائیے
کوئی دیتا ہے تو سامنے لائیے
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیئے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبی

پیش داور جو ہے عاصیوں کا وکیل
جس کے ہاتھوں سے منظور ہوگی اپیل
جس کا مکھڑا ہے خود مغفرت کی دلیل
جس کی دو بوند ہیں کوثر و سلسبیل
ہے وہ رحمت کا دریا ہمارا نبی

جس کے عرفاں پہ موقوف عرفانِ ذات
جس کی رحمت کے سائے میں ہے کائنات
جس کے در سے نکلتی ہے راہِ نجات
جس کے تلووں کا دھوون ہے آبِ حیات
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی

اللہ اللہ وہ امی و استادِ کل
مچ گیا جس کی بعثت پہ مکے میں غل
رہبر انس و جاں ، منتہائے سبل
خلق سے اولیا ، اولیا سے رسل
اور رسولوں سے اعلی ہمارا نبی

جس کے اذکار کی ہیں سجی محفلیں
دم قدم سے ہیں جس کے یہ سب رونقیں
بزم کونین میں جس کی ہیں تابشیں
بجھ گئیں جس کے آگے مشعلیں
شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی

فرش کو مہر اعزاز جس کے قدم
جس کے ابرو میں اک دلربایانہ خم
وہ جمیل الشیم وہ جلیل الحشم
حسن کھاتا ہے جس کے نمک کی قسم
وہ ملیح دل آرا ہمارا نبی

جیسے مہرِ سما ایک ہے ویسے ہی
جیسے روزَ جزا ایک ہے ویسے ہی
جیسے بابِ عطا ایک ہے ویسے ہی
جیسے سب کا خدا ایک ہے ویسے ہی
اِن کا ، اُن کا ، تمہارا ،ہمارا نبی

کتنے روشن دئیے دم زدن میں بجھے
کتنے سروِ سہی زیر گردوں جھکے
کتنے دریا یہاں بہتے بہتے رکے
کیا خبر کتنے تارے کھلے چھپ گئے
پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی

زندگی کتنے موتی پروتی رہی
خود میں رنگ تغیر سموتی رہی
بیج کیا کیا تنوع کے بوتی رہی
قرنوں بدلی رسولوں کی ہوتی رہی
چاند بدلی کا نکلا ہمارا نبی

اب نہ دل پہ کوئی بات لیجے کہ ہے
جامِ کوثر کوئی دم میں پیجے کہ ہے
ائے نصیر اب ذرا غم نہ کیجے کہ ہے
غمزدوں کو رضا مژدہ دیجے کہ ہے
بے کسوں کا سہارا ہمارا نبی
 

الف نظامی

لائبریرین
پل سے اتارو ، راہ گزر کو خبر نہ ہو

یوں بخشواو جن و بشر کو خبر نہ ہو
دھل جائیں داغ ، دامنِ تر کو خبر نہ ہو
ایسے گزارو ، نارِ سقر کو خبر نہ ہو
پل سے اتارو ، راہ گزر کو خبر نہ ہو
جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو

دورِ خزاں کی زد میں ہے دل اس فگار کا
مدت ہوئی کہ منہ نہیں دیکھا بہار کا
دستِ حضور میں ہے شرف ، اختیار کا
کانٹا مرے جگر سے غمِ روزگار کا
یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو

جاں پر بنی ہوئی تھی غمِ انتظار میں
لے آئی مجھ کو دید حسرت مزار میں
حائل نہیں حجاب کوئی اس دیار میں
فریاد امتی جو کرے حالِ زار میں
ممکن نہیں کہ خیرِ بشر کو خبر نہ ہو

ان پر مٹا دے ان کی ولا میں خدا ہمیں
ایسی پلا دے ان کی ولا میں خدا ہمیں
بیخود بنا دے ان کی ولا میں خدا ہمیں
ایسا گما دے ان کی ولا میں‌خدا ہمیں
ڈھونڈا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو

بیٹھا ہے تیری پشت پہ آکر ابھی ابھی
نبیوں کا تاجدار بہ شانِ پیمبری
منزل ہے دور تر ، کوئی ضائع نہ ہو گھڑی
کہتی تھی یہ براق سے اس کی سبک روی
یوں جائیے کہ گردِ سفر کو خبر نہ ہو

مسجود کوئی ذاتِ احد کے سوا نہیں
مانا کہ وہ رسولِ خدا ہیں ، خدا نہیں
جائز کبھی یہ دینِ نبی میں‌ ہوا نہیں
اے شوقِ دل! یہ سجدہ گر ان کو روا نہیں
اچھا وہ سجدہ کیجے کہ سر کو خبر نہ ہو

گہرے کچھ اور ہونے لگے ہیں غموں کے سائے
دشتِ وفا میں کون قدم سے قدم ملائے
اے ضبطِ گریہ! آنکھ میں آنسو نہ آنے پائے
اے خارِ طیبہ ! دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے
یوں دل میں آ کہ دیدہِ تر کو خبر نہ ہو

انساں کو اذنِ شوخ کلامی نہیں جہاں
پرساں بہ جز رسولِ گرامی نہیں جہاں
ان سا نصیر شافعِ نامی نہیں جہاں
ان کے سوا رضا کوئی حامی نہیں ، جہاں
گزرا کرے پسر پہ پدر کو خبر نہ ہو
 

الف نظامی

لائبریرین
ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ

رکھ دیا قدرت نے اعجازِ مثالی ہاتھ میں
منتظر ہے حکم کا گنج لآلی ہاتھ میں
سبز ہوجائیں جو پکڑیں خشک ڈالی ہاتھ میں
ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ
سنگ ریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں

اس کا فیضِ عام سائل کو صدا دیتا ہے آپ
وہ جہانِ لطف و احسان میں جواب اپنا ہے آپ
میں نے یہ جانچا ہے ، یہ پرکھا ہے ، یہ دیکھا ہے آپ
جودِ شاہ کوثر اپنے پیاسوں کا پیاسا ہے آپ
کیا عجب اڑ کر جو آپ آ جائے پیالی ہاتھ میں

ان کا اندازِ عطا کچھ بے خرد ، سمجھے نہیں
مانگنے والوں کے یوں‌ہی رابطے ان سے نہیں
ہم نے دیکھے ہیں ، مگر ایسے غنی دیکھے نہیں
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

میرے خالق! حشر میں امت کا یہ مقسوم کر
پل سے گزرے ان کے نعلینِ مبارک چوم کر
ہر طرف سے اک یہی آواز آئے گھوم کر
سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الہی جُھوم کر
جب لواءُ الحمد لے امت کا والی ہاتھ میں

زانووں کا پیار سے منبر دیا سبطین کو
کیا شباہت کا حسیں منظر دیا سبطین کو
نعمتِ باطن سے ایسا بھر دیا سبطین کو
دستگیر ہر دو عالم کردیا سبطین کو
اے میں قرباں جانِ جاں انگشت کیا لی ہاتھ میں

بانٹنے کو آئے جب وہ ساقی کاکُل بدوش
ہر ادا جس کی خود اک ہنگامہ محشر خموش
سرد پڑ جائے مرے بحر تعقل کا خروش
کاش ہو جاوں لبِ کوثر میں‌یوں وارفتہ ہوش
لے کر اس جانِ کرم کا ذَیلِ عالی ہاتھ میں

حاضری کا کیا وہ منظر تھا نہِ چرخِ کبود
ہاتھ اٹھتے ہی وہ ابوابِ اجابت کی کشود
دل کی دنیا پر وہ انوارِ سکینت کا وُرُود
آہ وہ عالم کی انکھیں بند اور لب پر دُرُود
وقفِ سنگِ در جبیں ، روضے کی جالی ہاتھ میں

اے نصیر اس نعت میں لائے ہیں کیا مضموں ، رضا
کملی والے کے ثنا خواں ، عاشق و مفتوں رضا
شاہ کے پائے مبارک پر جو بوسہ دوں رضا
حشر میں کیا کیا مزے وارفتگی کے لوں رضا
لوٹ جاوں پا کے ان کو ذَیلِ عالی ہاتھ میں
 

الف نظامی

لائبریرین
مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام
صاحب تاجِ عزت پہ لاکھوں سلام
واقفِ راز فطرت پہ لاکھوں سلام
قاسمِ کنزِ نعمت پہ لاکھوں سلام
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

جس کو بے چین رکھتا تھا امت کا غم
نیک و بد پر رہا جس کا یکساں‌کرم
وہ حبیب خدا ، وہ شفیع امم
شہر یارِ ارم ، تاجدارِ حرم
نوبہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام

سرورِ دو جہاں ، شاہِ جن و بشر
جس کی چوکھٹ پہ جھکتے ہیں شاہوں کے سر
عبدِ خالق ، مگر خلق کا تاجور
صاحب رجعتِ شمس و شق القمر
نائبِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام

وہ خداوند اقلیمِ جود و سخا
ہادیِ انس و جاں ، شاہ ہر دوسرا
سر بر آوردہ حلقہ انبیا
جس کے زیرِ لوا آدم و من سوا
اُس سزائے سیادت پہ لاکھوں سلام

عہد طفلی میں وہ دلبرانہ چلن
دلستاں خامشی معجزانہ سخن
حسن میں دل کشی ، چال میں بانکپن
اللہ اللہ وہ بچنے کی پھبن
اس خدا بھاتی صورت پہ لاکھوں سلام

سرمگیں آنکھ ما زاغ کی راز داں
حلقہ زلف ، امت کا دارالاماں
ہاتھ فیاض ، عقدہ کشا انگلیاں
پتلی پتلی گلِ قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام

نور افشاں ہوا جب وہ بطحی کا چاند
دیکھنے آئے سب ، روئے طیبہ کا چاند
آسماں پر پڑا ماند دنیا کا چاند
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

جس گھڑی یاد باب حرم آگیا
سوزِ فرقت سے آنکھوں‌میں نم آگیا
موج میں جب وہ عیسی حشم آگیا
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا
اس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام

رنج تنہائی ، تنہا سے پوچھے کوئی
دردِ شبیر ، زہرا سے پوچھے کوئی
تہہ میں کیا ہے ، یہ دریا سے پوچھے کوئی
کس کو دیکھا یہ موسی سے پوچھے کوئی
آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام

جس کی تقدیس کا رنگ گہرا رہا
جس کے در پر فرشتوں کا پہرا رہا
مغفرت کی سند جس کا چہرا رہا
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام

بندگی جس کے صدقے ٹھکانے لگے
جس کے دیکھے خدا یاد آنے لگے
جس سے روتے ہوئے مسکرانے لگے
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام

روئے روشن پہ پڑتی نظر کی قسم
آمنہ کے چمکتے قمر کی قسم
مجھ کو سرکار کے سنگِ در کی قسم
کھائی قرآں نے خاکِ گزر کی قسم
اس کفِ پا کی حرمت پہ لاکھوں سلام

جس کا حامی خداوندِ عالم رہا
فتح کا جس کے ہاتھوں میں پرچم رہا
جس کا رتبہ جہاں میں مسلم رہا
جس کے آگے سرِ سروراں خم رہا
اس سرِ تاجِ رفعت پہ لاکھوں سلام

جس کے آگے سلاطینِ عالم جھکیں
جس کے اک بول پر اہل دل مر مٹیں
جس کی تعمیلِ ارشاد قدسی کریں
وہ زباں‌ جس کو سب کن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام

وقتِ دیدار ، چشم تماشا جھکی
دیکھ کر جلوہ گر ، موجِ دریا جھکی
جس کی آمد پہ دیوارِ کسرٰی جھکی
جس کے سجدے کو محراب کعبہ جھکی
ان بھووں کی لطافت پہ لاکھوں ‌سلام

خیر دنیا نہیں ، خیر عقبٰی نہیں
اس کے دستِ تصرف میں کیا کیا نہیں
جس کی طاقت کا کوئی ٹھکانا نہیں
جس کو بارِ دوعالم کی پروا نہیں
ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام

کون ہے وہ ، کرم جس پہ ان کا نہیں
سب کے ہیں ، ایک میرے ہی آقا نہیں
ایک میں ہی غلام ان کا تنہا نہیں
ایک میرا ہی رحمت پہ دعوی نہیں
شاہ کی ساری امت پہ لاکھوں سلام

خواجہ تاشِ نصیرِ ثنا خواں ، رضا
وہ بریلی کے احمد رضا خاں رضا
لا کے صف میں مجھے ان کے درباں ، رضا
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
 

الف نظامی

لائبریرین
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
مرحبا رنگ ہے کیا سب سے نرالا تیرا
جھوم اٹھا جس نے پیا وصل کا پیالا تیرا
اولیا ڈھونڈتے پھرتے ہیں اجالا تیرا
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلٰی تیرا

جیسے چاہے تری سنتا ہے سناتا ہے تجھے
حسبِ تدبیر سلاتا ہے جگاتا ہے تجھے
اپنی مرضی سے اٹھاتا ہے بٹھاتا ہے تجھے
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ ترا چاہنے والا تیرا

بخدا مملکتِ فقر کا تو ناظم ہے
تاجداروں پہ سدا دھاک تری قائم ہے
کیوں نہ راحم ہو کہ اللہ ترا راحم ہے
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی قاسم ہے
کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا

میں کہاں اور کہاں تیرا مقامِ قربت
میری اوقات ہی کیا تھی کہ یہ پاتا رفعت
تیری چوکھٹ نے عطا کی یہ مسلسل عزت
تجھ سے در ، در سے سگ ، سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا
 

فرخ

محفلین
مجھے آپ کے اشعار پڑھ کر اقبال کا ایک شعر یاد آگیا:

کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل پہ ہے؟
عشقِ بلاخیز کا قافلہء سخت جان​

اور اسکا مطلب شائید کچھ بھی مشکل نہیں۔۔۔۔۔۔

 
جزاک اللہ خیر۔ اللہ رب العزت آپ کو دو جہاں میں آقاِ دوعالم، نور مجسم ، شاہ بنی آدم محمد مصطفٰی صلی اللہ علیک وآلک واصحابک وسلم کی شفاعت عطا فرمائیں اور آپ کے صدقے سے اس گنہگاروں کے سردار کی بھی بخشش فرمائیں۔ امین ثم امین
سگ عطار ر رضا
محمد عویدص عطاری رضوی
 

الف نظامی

لائبریرین
ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ

رکھ دیا قدرت نے اعجازِ مثالی ہاتھ میں
منتظر ہے حکم کا گنج لآلی ہاتھ میں
سبز ہوجائیں جو پکڑیں خشک ڈالی ہاتھ میں
ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ
سنگ ریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں

اس کا فیضِ عام سائل کو صدا دیتا ہے آپ
وہ جہانِ لطف و احسان میں جواب اپنا ہے آپ
میں یہ جانچا ہے ، یہ پرکھا ہے ، یہ دیکھا ہے آپ
جودِ شاہ کوثر اپنے پیاسوں کا پیاسا ہے آپ
کیا عجب اڑ کر جو آپ آ جائے پیالی ہاتھ میں

ان کا اندازِ عطا کچھ بے خرد ، سمجھے نہیں
مانگنے والوں کے یوں‌ہی رابطے ان سے نہیں
ہم نے دیکھے ہیں ، مگر ایسے غنی دیکھے نہیں
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

میرے خالق! حشر میں امت کا یہ مقسوم کر
پل سے گزرے ان کے نعلینِ مبارک چوم کر
ہر طرف سے اک یہی آواز آئے گھوم کر
سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الہی جُھوم کر
جب لواءُ الحمد لے امت کا والی ہاتھ میں

زانووں کا پیار سے منبر دیا سبطین کو
کیا شباہت کا حسیں منظر دیا سبطین کو
نعمتِ باطن سے ایسا بھر دیا سبطین کو
دستگیر ہر دو عالم کردیا سبطین کو
اے میں قرباں جانِ جاں انگشت کیا لی ہاتھ میں

بانٹنے کو آئے جب وہ ساقی کاکُل بدوش
ہر ادا جس کی خود اک ہنگامہ محشر خموش
سرد پڑ جائے مرے بحر تعقل کا خروش
کاش ہو جاوں لبِ کوثر میں‌یوں وارفتہ ہوش
لے کر اس جانِ کرم کا ذَیلِ عالی ہاتھ میں

حاضری کا کیا وہ منظر تھا نہِ چرخِ کبود
ہاتھ اٹھتے ہی وہ ابوابِ اجابت کی کشود
دل کی دنیا پر وہ انوارِ سکینت کا وُرُود
آہ وہ عالم کی انکھیں بند اور لب پر دُرُود
وقفِ سنگِ در جبیں ، روضے کی جالی ہاتھ میں

اے نصیر اس نعت میں لائے ہیں کیا مضموں ، رضا
کملی والے کے ثنا خواں ، عاشق و مفتوں رضا
شاہ کے پائے مبارک پر جو بوسہ دوں رضا
حشر میں کیا کیا مزے وارفتگی کے لوں رضا
لوٹ جاوں پا کے ان کو ذَیلِ عالی ہاتھ میں
نایاب میر انیس
 

نایاب

لائبریرین
صاحب تاجِ عزت پہ لاکھوں سلام​
واقفِ راز فطرت پہ لاکھوں سلام​
قاسمِ کنزِ نعمت پہ لاکھوں سلام​
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام​
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام​
سبحان اللہ
جزاک اللہ خیراء الف نظامی بھائی
کیا خوب پرنور روحانی کیفیات سے بھرپور شراکت کی ہے ۔
درج ذیل شائد ٹائپو ہے ؟

کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا​
ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا​

جاں پر بنی ہوئی تھی غمِ انتظار میں​
لے آئی مجھ کو دید حسرت مزار میں​
حائل نہیں ججاب کوئی اس دیار میں​

اگر ٹائپو ہے تو درستگی کی درخواست ہے ۔
اللہ تعالی آپ کی اس شراکت نورانی کو ہم سب کے لیئے باعث نور و ہدایت بنائے آمین​

 

مہ جبین

محفلین
سبحان اللہ
اللہ اکبر
کیا بہترین تضمین نگاری ہے پیر نصیر الدین نصیر کی ، بلا شبہ بہت زبردست
جزاک اللہ خیراً کثیراً الف نظامی بھائی
اللہ پاک پیر نصیر الدین نصیر کے درجات کو بلند فرمائے اور انکے مزار پر اپنے انوار و تجلیات کی بارش فرمائے آمین
ٹیگ کرنے کا بہت شکریہ کہ میں آج ایک بہترین کلام سے مستفیض ہوئی
اللہ دونوں جہان کی خیر عطا فرمائے آمین
 

الف نظامی

لائبریرین
صاحب تاجِ عزت پہ لاکھوں سلام​
واقفِ راز فطرت پہ لاکھوں سلام​
قاسمِ کنزِ نعمت پہ لاکھوں سلام​
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام​
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام​
سبحان اللہ
جزاک اللہ خیراء الف نظامی بھائی
کیا خوب پرنور روحانی کیفیات سے بھرپور شراکت کی ہے ۔
درج ذیل شائد ٹائپو ہے ؟

کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا​
ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا​

جاں پر بنی ہوئی تھی غمِ انتظار میں​
لے آئی مجھ کو دید حسرت مزار میں​
حائل نہیں حجاب کوئی اس دیار میں​

اگر ٹائپو ہے تو درستگی کی درخواست ہے ۔​
اللہ تعالی آپ کی اس شراکت نورانی کو ہم سب کے لیئے باعث نور و ہدایت بنائے آمین​

پسندیدگی کا بہت شکریہ۔
ہمتا تو درست ہے ، البتہ حجاب لکھنے میں ٹائپو ہوگیا۔
 
Top