زندگی اتنی آساں نہیں ہے۔ یہاں تو (Server 2008 R2) سے سر کھپایا جا رہا ہے۔ لیکن میں کرتا ہوں کچھ۔ انشااللہ
ایک کام کریں ہیبریو کی بورڈ گوگل پر لکھ کر تلاش کریں اور egarc.ku.ed........... والے نتیجہ تلاش کرکے کھول لیں۔ امید ہے آپ کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ کی کسی بھی قسم کی حتی الامکان مدد کرکے مجھے بے پناہ خوشی ہوگی۔ :)
قبلہ ظرف ہے آپکا ورنہ مجھ سا کند ذہن تو استاد کے لئے وبال جاں ہوتا ہے :D۔ میں بہت مشکور ہوں آپکا کہ جہاں تک آپ مجھے لے آئے ہیں ورنہ میں تو کب کا گرمیوں کی چھٹیوں پر چلا گیا ھوتا ;)
 
قبلہ ظرف ہے آپکا ورنہ مجھ سا کند ذہن تو استاد کے لئے وبال جاں ہوتا ہے :D۔ میں بہت مشکور ہوں آپکا کہ جہاں تک آپ مجھے لے آئے ہیں ورنہ میں تو کب کا گرمیوں کی چھٹیوں پر چلا گیا ھوتا ;)
استاد اورشاگرد کارشتہ ہی نہیں۔ اخوت کارشتہ ہے۔ :)
 
عبرانی صوتیات۔ مختصر جائزہ
تاریخ: عبرانی صوتیات کو سمجھنے سے قبل ہمیں عبرانی زبان کی تاریخ سے واقف ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ ذیل میں مختصر طور پر ہم نے عبرانی کی تاریخ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ یہاں موضوع سے مناسبت کی حد تک ہی بیان کرنے کی گنجائش ہے۔ کوئی صاحب تفصیل کے متقاضی ہو تو اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کامطالعہ فرمالیں۔
رسم الخط: عبرانی زبان سامی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا اولین رسم الخط فینیقی تھا جسے بعد میں یہود نے آرامی سے مماثل رسم خط میں تبدیل کردیا۔ عبرانی زبان کی ابتدا کے متعلق کوئی حتمی بات اب تک سامنے نہیں آئی ہے، اس لیے اس حوالے سے گفتگو خاصی مشکل ہے۔ مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان تمام سامی زبانوں کا تعلق ایک ایسی زبان سے ہے جسے سامی زبانوں کی ماں کہا جاتا ہے اور جس کی نشونما جزیرۃ العرب (نہ کہ سعودی عرب) میں ہوئی، جو بعد میں سامیوں کی نقل مکانی کے نتیجہ میں دجلہ وفرات، شام اور حبشہ منتقل ہوئی۔ البتہ یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ اس اصل سامی زبان کی صورت وماہیت کیا تھی۔
عبرانی دور انتشار میں: دور ہیکل سلیمانی یا ہیکل اول (تقریباً ۹۷۳ ق م تا ۵۸۷ ق م) عبرانی زبان کا زریں عہد تھا۔ اس دور میں یہ یہود (صرف بنی اسرائیل نہیں) کی عام بول چال کی بھی زبان تھی اور مذہبی زبان بھی۔ لیکن اسیریٔ بابل میں عبرانی اپنی اصل حیثیت کھو بیٹھی، اور یہ صرف مذہبی کتابوں اور رسومات تک محدود ہوگئی۔ یہی وہ دور ہے جب یہود نے عراقی زبانوں (بابلی،آرامی) کو اختیار کرلیا۔ پھر فارس کے اقتدار نے فارسی کے بھی کچھ اثرات مرتب ہوئے۔ نیز عراق عرب تجارتی تعلقات کے سبب عربی زبان کے بھی اثرات عبرانی پر پڑے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہود نے اپنی زندگی سے اپنی مقدس اور مذہبی زبان کو اس حد تک بے دخل کردیا تھا کہ تورات کا آرامی ترجمہ کرنا پڑا۔ اس کا نام תרגום‎ ہے۔ تلمود میں جمارہ بھی آرامی میں لکھا گیا۔ حتی کہ تیسری صدی ق م تک ایک نیا لہجہ وجود میں آگیا جس کے قواعد (گریمر) ہی قدیم عبرانی سے مختلف ہوگئے۔ اور اس لہجہ میں فارسی، بابلی، یونانی، عربی اور آرامی کے کثیر الفاظ داخل ہوگئے تھے۔
دوسرے انتشار (diaspora) کے وقت یہود دو حصوں میں منقسم ہوکر دنیا میں پھیل گئے۔ ایک حصہ بحر ابیض متوسط کے علاقہ (mediterranean basin) میں آباد ہوا یعنی جنوبی یورپ میں، اور دوسرا حصہ شمال افریقہ اور یورپ کےبعض شمالی علاقوں میں آباد ہوا۔ یہاں سے عبرانی زبان دولخت ہوگئی۔ اور یہی وہ تاریخی موڑ ہے جسے سمجھنا عبرانی صوتیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ شمالی علاقہ میں بسنے والوں کی زبان اشکینازی کہلائی اور جنوب میں بسنے والوں کی سفرڈی۔
ایک اہم بات عرض کرتے چلیں کہ سفرڈی عبرانی اندلس اور شمالی افریقہ میں عربیت کے زیر سایہ پروان چڑھی، ابن جنی وغیرہ کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ عربی نحو وبلاغت کی زبرست چھاپ اس پر موجود ہے۔ اور موجودہ اسرائیلی دنیا میں باوجودیکہ اشکینازیم برسراقتدار ہیں لیکن انہوں نے سفرڈی عبرانی کو ہی فصیح زبان قرار دیا اور عبرانی زبان کا ادارہ اسی زبان کا پابند ہے، تمام شعبہ جات میں یہی عبرانی قابل قبول ہے۔ خیر یہ بحث کسی اور وقت کے لیے۔ خاصا دلچسپ موضوع ہے۔
 
عبرانی صوتیات
بوجوہ ہم اس وقت عبرانی صوتیات کا محض پہلا حصہ جوحرکات (زبر،زیر،پیش اور سکون) سے متعلق ہے، پیش کررہے ہیں۔ مزید حصے اگر ابتدا میں ہی پیش کردیے جائیں تو شاید ہمارے بھائی اس دھاگہ سے فرار میں ہی عافیت جانیں۔ :LOL:
عبرانی زبان کے قواعد انتہائی آسان ہے۔ اس لیے کہ اس زبان میں ’’اعراب‘‘ موجود نہیں ہے، غیر معرب زبان۔ چنانچہ رفع، نصب، جر اور جزم کے جھگڑے سے یہ زبان مامون ہے (سوائے ایک حالت کے وہ بھی قدیم عبرانی میں پائی جاتی ہے لہذا فی الوقت اس سے کوئی سروکار نہیں)۔ جو زبان اعراب کی بنیاد پر تشکیل نہیں پاتی اس میں لامحالہ جملوں کا نظام برتنا ہوتا ہے۔ جبکہ عربی زبان اعراب پر تشکیل کی گئی ہے، اور عربی کی اس خصوصیت میں سوائے عکادی زبان (اور اس کی شاخیں بابلی، اشوری اور کلدانی) کے کوئی بھی سامی زبان شریک نہیں ہے۔ (اور یہ تمام زبانیں اب مرکھپ گئیں۔ لہذا گڑے مردے اکھاڑنے سے کوئی فائدہ نہیں، اب ہمارے یہاں ناغ حمادی تو ظاہر ہونے سے رہا)۔ :ROFLMAO:
دیگر سامی زبانوں کی طرح عبرانی میں بھی حروف لین موجود ہیں۔ یہ ۴ حروف ہیں:
א ה ן י
یہ چاروں حروف زبر، زیر اور پیش کی جگہ استعمال ہوتے ہیں:
الف اور ہیہ زبر (פַּתַח) کی جگہ۔
پیش (קֻבּוּץ‎‎) کی جگہ واو۔
اور زیر (חִירִיק‎‎) کی جگہ یود۔
ساتویں صدی عیسوی تک یہ حرکات کا نظام عبرانی میں رائج نہیں تھا، اسے بعد میں عربی وسریانی نظام حرکات سے مدد لے کر اختیار کیا گیا۔ اور مدرسہ طبریہ کے جانب منسوب کرکے اسے نظام طبری کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل نقطوں کا بابلی نظام رائج تھا جسے آرامی سے اخذ کیا گیا تھا۔
ان میں سے ہر ایک حرکت کی ذیلی دو دو اقسام ہیں جن کی تفصیل ان شاء اللہ ہر سبق کے ساتھ آپ ملاحظہ فرماتے رہیں گے۔ فی الحال تفصیلات قبل ازوقت ہوگی۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میری ناقص رائے یہ ھے کہ حرکات سے متعلق یہ سبق اگر صوتی صورت میں مل جاتا تو نہ صرف حرکات کی ادائیگی اور استعمال میں مددگار ہوتا بلکہ سیکھنے کی رفتار میں بھی خاطرخواہ اضافے کا سبب بنتا۔
 
میرا ایک سوال ہے۔ کافی کتب میں سریانی زبان کا ذکر ملتا ہے۔ احادیث میں بھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سریانی زبان سیکھی۔ اسکے علاوہ صوفیا کی چند مایہ ناز کتب مثلاّ الابریز میں اس زبان کے حوالے سے کافی دلچسپ باتیں بیان کی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے پچھلے مراسلوں میں کافی قدیم زبانوں کا ذکر کیا لیکن اس میں سریانی کا نام نہیں ہے۔ کیا اس زبان ہی کو تو آرامیک نہیں کہا جاتا؟۔ براہِ کرم اس پر بھی کچھ روشنی ڈالئیے۔ شکریہ :)
محمد شعیب
 
مشکور ہوں محمود بھائی! آپ نے انتہائی اہم بات کی جانب توجہ دلائی۔ :)
آپ نے درست کہا کہ سریانی زبان کا تذکرہ ہماری کتابوں میں ملتا ہے، حتی کہ احادیث کی بعض کتب میں یہاں تک مروی ہے کہ یہ عالم برزخ اور قیامت کی بھی زبان ہوگی۔ سیوطی، ابن شیبہ وغیرہ نے روایت کیا ہے (یہ احادیث ضرور کسی علت کی بنا پر معلول ہوگی، ابن ابی حاتم نے بھی بعض کو العلل میں جگہ دی ہے۔ تاہم اس وقت ان احادیث کے ضعف اور سقم پر کلام مقصود نہیں، اس کا محل کہیں اور ہے)۔
اور پچھلے مراسلوں میں ذکر نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ سُریانی زبان عبرانی کے بعد معرض وجود میں آئی، البتہ نظام حرکات اسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے عبرانی میں، جس کا تذکرہ ہوچکا۔
سریانی سامی زبانوں میں سے ہے اور آرامی زبان سے نکلی ہے۔ آرامی اپنے دور ترقی میں دو لہجہ میں تقسیم ہوگئی تھی، ایک عراق میں رائج تھا اور دوسرا شام میں۔ بس یہی نقطہ آغاز ہے سریانی کا۔ گوکہ سریانی نے اس کے بھی بہت بعد پرپرزے نکالے۔ غالباً پہلی یادوسری صدی عیسوی میں۔ اور چوتھی صدی عیسوی میں مسیحی مدارس نے اس کی ترقی میں زبردست کردار ادا کیا۔ آج بھی اس کا شمار مسیحیت کی اہم ترین زبانوں میں ہوتا ہے۔عیسائیوں نے اس زبان کو کبھی مٹنے نہیں دیا۔
اسلامی دور میں بھی یہ زبان خوب پھلی پھولی۔ لیکن جس طرح اندلس میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ سے عبرانی فنا بر دوش ہوگئی تھی، اسی طرح خلافت عباسیہ پر تاتاری یلغار کے نتیجہ میں سریانی بھی زوال آمادہ ہوگئی۔ لیکن عیسائی کنیسہ نے اس کو ناپید ہونے بچالیا۔آج یہ زبان کئی ممالک میں موجود ہے۔ یہاں ہندوستان میں بھی کیرالا میں پائی جاتی ہے۔
ایک اہم بات، جس طرح عربی میں ادب مہجر کا وجود ہے، اسی طرح سریانی میں بھی ادب مہجر پایا جاتا ہے۔سویڈن حکومت کا خاصی تعاون رہا ہے۔
اس بارے میں مزید تفصیل کا یہ عبرانی دھاگہ متحمل نہیں، اس لیے معذرت۔ :( لیکن ہمارا ارادہ ہے کہ عبرانی کے بعد سریانی کے کم ازکم ابجد اور بنیادی قواعد یہاں محفل میں پیش کریں۔ واللہ ہوالموفق۔ :)
محمود احمد غزنوی
 
ایک بات مزید، قومیت عربیہ کے نعرہ نے بھی سریانی زبان وتہذیب کے فروغ میں اچھا کردار ادا کیا ہے۔
قومیت کے حامی ایک عرب مفکر کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
ومع أن الحضارة العربية۔الاسلامية أتت متأخرة بعض الشئي (1500سنة) فان الحضارة السريانيه الممتدة عبر ثلاثة آلاف وخمسمئة سنة، أعطت الكثير الكثير للحضارة العربية
وھكذا منذ نشأت الحضارة العربية، كانت ھناك حضارة أخرى في المنطقة تعاونت معھا، أخذت منھا وأعطتها، حتى كادت أن تذوب الأخيرة بھا، وهي الحضارة السريانية
اللہ اکبر! یاللعجب!! اس طرح کی باتیں اور بھی مل جائے گی آپ کو کتابوں میں۔
 
Top