ساتویں سالگرہ لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
2012 کو نازل ہوئے ابھی ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا تھا ۔ نظامِ کائنات اپنی چال سے چل رہا تھا ، اور دنیا میں کسی کو خبر ہی نہ تھی کہ پاکستان کے اس چھوٹے سے ضلع کا آدم بیزار کہلایا جانے والا (بزرگوں کی ڈکشنری میں)گھبرو جوان کچھ خاص کرنے والا ہے۔اور اس طرح 28 کے ہندسے کو ایک بار پھر شرف بخشا گیا ، کہ یہ تاریخ میں سنہری نہیں تو کم از کم اورنج حروف میں لکھا جائے ۔ 28 مئی وہ دن تھا جب پاکستان نے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا دھماکے دار اعلان کیا اور 28 جنوری قدرتِ حق سے مقرر کیا گیا وہ دن ٹھہرا جب چھوٹے غالبؔ نے اردو ویب کی دنیا میں اپنے داخلے کا اعلان کیا۔

ہمارے وسیب میں لوگوں کی صبح اٹھتے ہی یہ دعا ہوتی ہے کہ یا اللہ صبح صبح کسی اچھے بندے کی شکل دیکھنے کو ملے تاکہ باقی کا دن بھی اچھا گزرے، مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ میں نے اردو ویب پر آتے ہوئے یہ دعا مانگی تھی یا نہیں ، یا پھر شاید قدرت کو یہی منظور تھا ، میری پہلی ملاقات شمشاد زندہ باد سے ہوئی ،خدا جھوٹ نہ بلوائے میں باجی یا خالہ جی سمجھا، شکر ہے اس وقت ظاہر نہیں کیا، سلام دعا ہوتے ہوتے مجھ پر اچھا خاصا امپریشن پڑ چکا تھا (اردو محفل کا)،جب مجھے تعارف کروانے کو کہا گیا تو میں نے ہونقوں کی طرح اسی دھاگے میں اپنا تعارف نما مراسلہ گھسیٹ دیا ، بعد میں پتا چلا کہ کوئی الگ سا گوشہ اس کام کیلئے مخصوص کیا گیا ہے ، میں نے جونہی تعارف کا زمرہ ڈھونڈنے کی غرض سے "فورم" نامی بٹن پر کلک کیا میرے ہوش کے طوطے کبوتر اڑتے اڑتے رہ گئے ، میں جو ایک منحنی سی فہرست کا منتظر تھا ، اس شیطان کی آنت کی بھی خالہ نما فہرست کو دیکھ کر سچ مچ کچھ دیر تو چکرا سا گیا ، اور سچ مچ خود کو "گواچی گاں" محسوس کرنے لگا ۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ایک خیال آیا کہ دو حرف بھیجو تعارف کے زمرے اور تعارف پر ،اور چپکے سے پتلی گلی سے نکل لو اور پھر آئندہ ادھر کا رخ نہ کرنا۔​
لیکن پچھلی تمام پشتوں کے گزر چکے جلالی بزرگوں کی روحیں اچانک لوبان کی دھونی کے بنا خود بخود نہ صرف یہ کہ حاضر ہو گئیں ، بلکہ مجھ پہ دبے لفظوں میں لعن طعن شروع کر دی ، کہ ساری زندگی ہم نے جو کمائی آج اس "عزتِ سادات" کو اپنی کوڑھ مغزی کی بھینٹ چڑھانے والے ہو، میں ابھی آئیں بائیں شائیں کرنے ہی والا تھا کہ ایک نہایت پر نور اور سرخ و سفید خوبصورت چہرے والے بزرگ تشریف لائے ، سفید داڑھی ( گو کہ سر سید احمد خان جتنی نہیں تھی) اور مخمور آنکھیں مزید ان کی شخصیت کو بارعب بنا رہی تھیں ، میرا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رک گیا ، اور قسمت یاوری پر بے اختیار دھمالیں ڈالنے کو جی چاہنے لگا ، مگر حالت یہ تھی کہ "زمین جنبد ، نہ جنبد گل محمد"​
بے اختیار میرے منہ سے نکلا​
وہ آئے گھر میں ہمارے ، یہ خدا کی قدرت ہے​
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے بھوت بنگلے کو دیکھتے ہیں​
اور اگلے ہی لمحے میں نے خود کو اپنے دل ، روح ، اور جسم سمیت استاد محترم ، خان بہادر، نجم الدولہ ، دبیر الملک، مرزا نوشہ ، اسداللہ خان بیگ غالبؔ کے قدموں سے لپٹا پایا، "کہاں میں اور کہاں یہ مقام ، اللہ اللہ "​
ایک عالم تھا، ایک کیفیت تھی، ایک بے خودی تھی ، اور رنگ ہی رنگ تھے، یہ کیفیت صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے عشق خانہ ویراں ساز سے عزت افزائی کروائی ہو۔ کاش وقت رک سکتا ہوتا تو میں کسی بھی قیمت پر کوئی بھی قربانی دے کر ان لمحوں کو روک لیتا ، اور بس پھر بیٹھا رہتا قدموں میں جاناں کے ، لیکن استاد محترم کی آواز نے مجھے اس طلسم ہو ش ربا سے نکال سامنے کھڑا کیا،سبحان اللہ کیا شاندار آواز تھی ، سچ مچ "ہر تان ہے دیپک ، آواز تو دیکھو" والا مصرعہ میں نے حقیقت میں ڈھلا دیکھا، فرمایا چھوٹے میاں ! عرض کیا جی استاد !، فرمایا کیا اسی دن کیلئے میں نے تمہیں اپنا شاگرد بنایا تھا؟ کہ جب وقت پڑے تو بزدلوں کی طرح پیٹھ دکھا دو، معاذاللہ غالبؔ کے شاگرد ہو کر اتنی بد ذوقی؟​
عرض کیا ، استاد میں تو اندھوں میں کانا راجا ہوں ، مانا کہ فیس بک میں نے کچھ بدراہ لوگوں کو جو تصوف کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرتے تھے کا بینڈ بجایا ہے اور ہر میدان میں واٹ لگائی ہے، گر یہاں اول تو میری ضرورت ہی نہیں ، کیونکہ یہاں بڑے بڑے با ذوق لوگ موجود ہونگے ، پھر ان سب کے بیچ میں چھوٹا سا (بقول مغزل ننھامنا)کیا کر پاؤں گا، اب سب ادب کے جغادریوں کے سامنے میری حیثیت تو پدی کے شوربے جتنی بھی نہیں۔ فرمایا ہم جو کہہ رہے ہیں ، کہ تمہیں اس میدان میں اترنا ہے ، تو پھر کیوں لیت و لعل کر رہے ہو،عالمِ بالا میں تو ایسے ہر گز نہ تھے، کیا تمہیں بھی اس منافق اور دوغلی دنیا کی ہو الگ گئی ہے؟ کیا اپنی غالبیت والا سبق بھلا دیا تم نے؟​
منمنا کے عرض کیا:۔ استاد ِ عالی ! بات دراصل یہ ہے کہ دنیا میں آتے ہی مجھے معلوم پڑا کہ یہاں کے بدذوقوں ، اور کوڑھ مغزوں نے آپ کے ساتھ اور آپ کی نوائے سروش کی تان پر لکھی گئی غیب سے آمدہ مضامین سے بھری شاعری کے ساتھ کیا سلوک کیا تو اللہ جانتا ہے میں نے اسی وقت اس بے مروت دنیا کو طلاق دے ڈالی اور جوگ اختیار کر لیا ، اب بھی وہی ڈر مانع ہے کہ جہاں غالبؔ پر ذوق ؔ کو ترجیح دی جاتی تھی،وہاں مجھ مسکین طوطی کی کون سنے گا؟یہ تو لکیر کے فقیروں اور فرسودہ روایات کے اندھے مقلدوں کا اکھاڑہ ہے ، جہاں نورا کشتی جاری ہے​
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
استاد محترم ماضی کے ذکر پر کچھ اداس سے ہو گئے اور (شایدغیظ سے) چہرہ مبارک کا رنگ (مزید )سرخ ہو گیا ،فرمایا:۔ کیا میں نے اس کے باوجود بھی قاطع برہان نہ لکھی تھی؟کیا میں نے 300 سال سے قائم برہانِ قاطع کا سومناتھ نہ توڑا تھا؟ کیا میں نے سب کووں کے درمیان بلبل کا نغمہ نہ الاپا تھا؟
عرض کیا :۔ سرکار ، آپ کے فرمائے ایک ایک حرف پر میں سو جان سے قربان ، میں اردو محفل جوائن تو کر چکا ہوں، مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ میں یہاں کروں گا کیا؟
ایک نہایت لطیف مسکراہٹ استاد محترم کے شیریں لبوں پر نمودار ہوئی اور میں بن پیے ایک بار پھر مخمور ہو کر جھومنے لگا، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لیکر محفل کی لائبریری میں لے آئے، جہاں ایک ادبی کہکشاں جلوہ افروز تھی، ایک روشن ترین ستارے جس پر غالبیات کے سنہری جلی حروف پوری لائبریری کو چکاچوند کر رہے تھےپر جا اترے۔ ایک طرف گئے تو سامنے نظام ِ شمسی سے ملتا جلتا نظامِ وارثی پایا، بہت سے دھاگے سیاروں کی طرح ان کے ارد گرد محو گردش تھے(میری پہلی آمد سیدھی لائبریری میں وارث بھائی کے دھاگے میں ہوئی تھی)
ایک سیارہ (دھاگہ) منتخب کر کے استادِ عالی مقام مجھے ساتھ لیے اس کے کرہ ہوائی میں داخل ہو گئے ،جہاں ہر طرف استاد محترم کے قہقہہ آور لطیف ترین لطیفے لہلہا رہے تھے، قسم سے جی خوش ہوگیا دیکھ کر۔ میں نے پوچھا استاد جی آپ نے جناب محمد وارث کا تو بتایا ہی نہیں میں تو بس حالی اور میر مہدی صاحب سے واقف ہوں ۔

محمد وارث کے ذکر پر استاد محترم کا سینہ فخر سے پھول گیا اور چہرے پر بشاشت سی دوڑ گئی ، کہنے لگے ہاں یہ بھی تمہاری طرح میرا خاص الخاص روحانی شاگرد ہے ، پیار سے میں اسے وارث مرزا کہتا ہوں ، ایسا قابل شاگرد ہے کہ کیا بتاؤں ، بس یوں سمجھو ، کہ اللہ نے حالیؔ ، مہدی مجروحؔ، ہر گوپال تفتہؔ، نیئرؔ ، وحشتؔ اور شیفتہ ؔ کے دماغ سے ایک ایک نیوران لے کر اس کے دماغ میں پیوند کاری کی ہو ۔
میرے اندر کا باغی پھر کلبلایا:۔ استاد جی، جب محمد وارث مرزا بنفسِ نفیس تشریف فرما ہیں ، تو پھر میرے یہاں دھکیلے جانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
استاد ِ اعظم نے مسکرا کے فرمایا :۔ خود کو موسیٰ اور مجھے خضر سمجھ لیا ہے؟ ذرا صبر کرو ، ابھی وجہ سامنے آ جاتی ہے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ چلتے چلتے ایک قطعے پر جا پہنچے ، جہاں ہر طرف کیکٹس، تھوہر، اور دھتورے کے بدبو دار پودے ماحول کو ہیبت ناک بنا رہے تھے۔ میرا تو دم گھٹنے لگا ، مگر استاد محترم کی موجودگی کا لحاظ کر کے خود کو وہاں سے بگٹٹ بھاگنے سے باز رکھا۔ اور نہایت حیرانی سے پوچھا، استاد یہ تابکارلطیفے بھی آپ کے ہیں؟​
اللہ جانتا ہے ، استادِ محترم کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا ، اور ناگواری سے بولے ، بے ادب ، گستاخ !! کیا ان بازاری قسم کے لطیفوں میں تمہیں میرار نگ جھلکتا نظر آتا ہے؟، میں گھبرا کے بولا ہر گز نہیں استاد جی، میں تو خود حیران ہوں کہ ان لطیفوں پر آپ کا لیبل کیوں لگایا گیا ہے ، اور یہ کارنامہ ہے بھی ان کا جن کی آپ ابھی تعریف کر رہے تھے۔​
استاد کسی قدر مضمحل ہو گئے اور پر مژدہ لہجے میں فرمایا:۔ یہی بات تو خود میری سمجھ سے باہر ہے ، پتہ نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے وارث مرزا کو، شادی سے پہلے تو اچھا خاصا تھا، مگر اب بدلتا جا رہا ہے ۔ اب وارث مرزا کو ہم سے وہ پہلے سی محبت، وہ والہانہ انسیت نہیں رہی، لیکن مجھے اب بھی یقین ہے کہ یہ جسارت وارث مرزا ہر گز نہیں کر سکتا، سگریٹ نوشی کا شوقین ہے ، کسی نے چرس والا سگریٹ پلا کر یہ خرافات مجھ سے منسوب کرالی ہونگی​
مجھ سے روئے جاناں کا یہ افسردہ نظارہ برداشت نہ ہو سکا ، اور دل بھر آیا، میں نے بات بدلنے کی کوشش کی کہ استاد اب جانے بھی دیں ، ایسا تو ہوتا رہتا ہے دنیا میں تو معلوم ہوا کہ استاد ِ محترم کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہے، فرمایا :۔ مجھے فرق پڑتا ہے ، اور بہت فرق پڑتا ہے ، میں نے ساری زندگی اپنی انا اور عزتِ نفس کی حفاظت میں لگا دی ، اس کیلئے مجھے بہت بہت سی قربانیاں بھی دینی پڑیں اور لوگوں طعنے بھی سہنے پڑے ، اب جب کہ میں اس دنیا میں موجود نہیں تو لوگوں کو موقع مل گیا ہے ، میری عزت ،میری انفرادیت اور میری غالبیت خاک میں ملانے کا ، بھلا خود بتاؤ کہ ان لطیفوں کو پڑھنے کے بعد کوئی مرزا اسد اللہ خان غالبؔ یا کسی ڈوم، مسخرے ، بھانڈ ، میراثی میں فرق کر سکے گا؟​
صرف یہی لطیفوں پر ہی بس نہیں ، ایسے ایسے عقل کے اندھے بھی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہیں شاید الف بے بھی پوری نہ آتی ہو ، مگر وہ پتا نہیں کس کس ایرے غیرے نتھو خیرے کے گھٹیا ترین اشعار (جنہیں شعر کہتے بھی شرم آتی ہے) بڑے دھڑلے سے مجھ سے منسوب کر کے بڑے محقق اور اردو دان بنے پھرتے ہیں۔ ایک تو اللہ نے مجھے اولاد نہیں دی اوپر سے یہ ظلم۔۔۔۔۔۔۔(استادِ محترم کی آواز بھرا گئی)​
میں نے اپنے اندر ایک عزم ابھرتا پایا ، اسی وقت تہیہ کر لیا اور استاد محترم سے بھی کہہ دیا کہ ، اے استادِ عالی مقام ، آپ کے الہامی دیوان کی قسم ، آپ کی غالبیت، آپ کی انفرادیت کی قسم ، میں اب سچ کا پرچم لہرا کر رہوں گا، دنیا کو آپ کا وہ روپ دیکھنا ہوگا جس پر آپ نے ساری زندگی پردہ ڈالے رکھا
بے شک اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا دیکھے ،اور انشاءاللہ دنیا دیکھے گی
اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
اور یوں میں تعارف کے زمرے میں آ دھمکا​
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ریکارڈ پر ہے​
اگر یہ پسند کیا گیا ، اور لوگوں کو سمجھ آ گئی تو انشاء اللہ اس سے اگلی قسط میں اردو محفل پر پیش آمدہ آپ کے گوش گزار کرتا رہوں گا، لیکن ابھی تو میپکو کی طرف سے ملی مہلت ختم ہونے والی ہے، یعنی محترمہ بجلی کی رخصتی کا وقت قریب ہے​
یہ آمد نامہ مہ جبین آپا کی تحریک پر لکھا گیا​
یہ حقیر سا برادرانہ نذرانہ نہایت ہی اعلیٰ ذوق کی حامل آپی کے نام​
 

مہ جبین

محفلین
بہت بہترین اور زبردست آمد نامہ لکھا ہے اویس۔۔۔۔!

یقیناً اِس شگفتہ شگفتہ تحریر نے کچھ بدمزہ تحریر کی کڑواہٹ کو کافی حد تک کم کر دیا ہے

اللہ تم کو یونہی ہنستا مسکراتا رکھے تاکہ دوسروں میں خوشیاں بانٹتے رہو آمین


بہت شکریہ ناقص کی رائے کا احترام کرنے کا
 

الف عین

لائبریرین
بہت مزا آیا چھوٹے میاں، میرے خیال میں جھنڈا تو یہاں اونچا پہلے سے ہی تھا چچا غالب کا، ان کی شان میں گستاخی کا مجھ کو علم نہیں ہو سکا۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
بہت مزا آیا چھوٹے میاں، میرے خیال میں جھنڈا تو یہاں اونچا پہلے سے ہی تھا چچا غالب کا، ان کی شان میں گستاخی کا مجھ کو علم نہیں ہو سکا۔
آپ سے زیادہ مزہ تو مجھے آیا
آپ کے زبردست ریٹ کیے جانے کے نوٹیفیکیشن دیکھ کر
جزاک اللہ جناب
یہی کوئی دو چار لوگ ہی تو ہیں
جو حق حلال کی داد دیتے ہیں
باقی تو بس "گونگلوؤں سے مٹی جھاڑت ہیں"
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
واہ
اس دفعہ تو تحاریر کا ایک ریلہ ہے جو آپ کے قلم سے بنا رُکے نکلتا آ رہا ہے۔
اب خوش:grin:
ایک کم ہے
پہلے وہ پوری کرو:p

یہ تحریر لکھنے کا میرے ذہن میں کوئی ارادہ نہیں تھا
ایک اور تحریر لکھتے لکھتے بس یونہی سوچا کہ کچھ اس پر بھی لکھا جائے
بس پھر لکھنا جو شروع کیا تو پھر پتا نہیں چلا

بعد میں جب خود پڑھا تو مزہ آ گیا
سوچا تھوڑی داد بٹوری جائے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمیشہ دیر کر دیتا ہو کے مصرعہ کی زندہ مثال بنا ہوا ہوں آجکل۔ داد دینے بھی تب پہنچا جب حاضرین اس دھواں دار تقریر ختم ہونے پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا کر اپنے اپنے گھر کی راہ لے چکے تھے اور پنڈال میں اکیلا مقرّر بیٹھا غالباً اگلی نشست کی تیاری کر رہا ہے۔ خیر جناب ہمارا نئیوندرا بھی قبول فرمائیے۔:great: اور کاپی پر ہمارا نام بھی لکھ لیجیئے:D
 
Top