سر سید کی کہانی سر سید کی زبانی... اپ ڈیٹ

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کم از کم ہمارے پاس مکمل کتاب ایک جگہ محفوظ ہے، اب کاپی رائٹ کا مسئلہ رہا تو اسے عام نہیں کریں گے اور مسئلہ جاتا رہا تو عام کر دیں گے۔ :) :) :)

مجھے خیال تھا کہ شاید اس کے کاپی رائٹ کی نوعیت واضح ہو چکی ہے ۔
جن کتب کے کاپی رائٹ واضح نہ ہوں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ انہیں کچھ متن چھوڑ کر پیش کیا جائے گا ۔
 
مجھے خیال تھا کہ شاید اس کے کاپی رائٹ کی نوعیت واضح ہو چکی ہے ۔
یعنی آپ کا کہنا ہے کہ اب اس کو عوام کے لئے مکمل طور پر جاری کیا جا سکتاہے؟ یا پھر سکے کا دوسرا رخ یعنی پوری طرح چھپا دیا جانا چاہئے؟

جن کتب کے کاپی رائٹ واضح نہ ہوں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ انہیں کچھ متن چھوڑ کر پیش کیا جائے گا ۔
انسپائرڈ بائی گوگل بک سرچ! :) :) :)
ویسے یہ فیچر اپنی لائبریری کی پریزینٹیشن لئیر میں شامل کی جا سکتی ہے لیکن ذخیرے میں تو سبھی کچھ ہونا چاہئے۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
ایسی کتابوں کے بارے میں میرا خیال ہے کہ آخر کا متن کچھ کم کر دیا جائے۔ میں اصل متن کی بات کر رہا ہوں۔ یوں تو دیوان غالب بھی کاپی رائٹ سے آزاد نہیں رہتا اگر اس میں شمس الرحمٰن فاروقی کا پیش لفظ ہو۔ ایسی صورت میں اس کے بغیر ہی متن فراہم کیا جانا چاہئے۔ ویسے ہمارے اراکین، شگفتہ کے مشورے کے مطابق ہی، ایک ایک لفظ ٹائپ کرتے ہیں۔ بشمول اصل پبلشر کے نام کے۔ میں یہ کئی بار کہہ چکا ہوں کہ اب اصل پبلشر ہم ہیں۔ اسی طرح میں اس سے بھی متفق نہیں کہ املا بھی وہی رکھی جائے جیسی اصل کتاب میں ہے۔ بلکہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ املا بدل کر بھی ہم کاپی رائٹ کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں!!۔ جان بوجھ کر غلطی کر دی جائے، کہ ثبوت ہو کہ یہ اصل متن نہیں ہے، اصل متن میں مثال کے طور پر م ن ح ص ر لکھا ہے، تو ہم م ن ح ض ر کی اجازت دے دیں!! کلیات کے بارے میں یہ کرتا ہوں کہ مختلف ناموں سے دو تین مجموعے شائع کر دئے جائیں۔کہ کلام پر شاعر کا کاپی رائٹ اکثر نہیں ہوتا، پبلشر کا ہوتا ہے جس کا اطلاق اسی صورت میں ہونا چاہئے جب مکمل متن، بشمول مقدمہ وغیرہ شامل کیا جائے۔
 
Top