خدا جھوٹ نہ بلوائے

زلفی شاہ

لائبریرین
’’خدا جھوٹ نہ بلوائے‘‘ یہ کلمہ اکثر وبیشتر ہمارے مسلمان بھائی ناسمجھی میں بول دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں جھوٹوں پر لعنت فرما رہا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔
لعنۃ اللہ علی الکذبین۔
اسی طرح کے بہت سارے کلمات ہیں جو انجانے میں مسلمان بول جاتے ہیں اور معلوم بھی نہیں ہوتا کہ بعض کلمے اس طرح کے ہیں کہ جنہیں بولنے سے انسان کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ آپ حضرات کو اگر اس طرح کے کلمات معلوم ہوں تو ضرور شئیر کریں تاکہ مسلمان ان کلمات سے احتیاط کر سکیں۔
یوسف ثانی بھائی اور ام نور العين صاحبہ اس موضوع پر روشنی ڈالیں۔نوازش ہو گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
بات آپ کی درست ہے، اس کا دوسرا معنی یہ بھی نکل سکتا ہے کہ خدا جھوٹ بھی بلوا سکتا ہے۔

اصل میں کہنے والے کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کرے میں جھوٹ نہ بولوں۔

نیتوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
 

مغزل

محفلین
’’ خدا جھوٹ نہ بلوائے ‘‘ محاورتاً بولا جاتا ہے یہ الگ بات کہ اس سے بچنا ضروری ہے ۔۔
درپردہ معانی یہی ہوتے ہیں کہ چونکہ خدا جھوٹ نہیں بلواتا سو یہ بات درست یا سچ سمجھی جائے ۔۔
یعنی یہ ایک طرح کا قسمیہ جملہ ہے ۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
بات آپ کی درست ہے، اس کا دوسرا معنی یہ بھی نکل سکتا ہے کہ خدا جھوٹ بھی بلوا سکتا ہے۔

اصل میں کہنے والے کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کرے میں جھوٹ نہ بولوں۔

نیتوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
1۔ اردو میں یہ محاورہ مستند ہے۔ اور اس کا لغوی مطلب یہی ہے کہ : اللہ نہ کرے کہ میں جھوٹ بولوں۔
2۔ لیکن یہ ایک ذومعنی فقرہ بھی ہے اور اس کا یہ مطلب بھی نکل سکتا ہے کہ (نعو ذبا للہ) :اگر مجھ سے اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو۔۔۔
3۔ اردو زبان میں ایسے بہت سے ’’مستند‘‘ محاورے اور ضرب الامثال ہیں جو اسلامی نکتہ نظر سے غلط ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہی ہے۔ دیگر جملوں میں۔۔۔ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی، نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس قسم کے غیر اسلامی فقروں کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے۔
 
’’خدا جھوٹ نہ بلوائے‘‘ یہ کلمہ اکثر وبیشتر ہمارے مسلمان بھائی ناسمجھی میں بول دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں جھوٹوں پر لعنت فرما رہا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔
لعنۃ اللہ علی الکذبین۔
ان دونوں باتوں كا تعلق مجھے سمجھ ميں نہيں آيا ، "حالاں کہ "كے استعمال سے معلوم ہوتا ہے كہ انہيں متضاد سمجھا جا رہا ہے يہ متضاد كس طرح ہيں؟ اگر صاحب موضوع مزيد وضاحت كر سكيں تو بہتر ہے۔

میرے نزدیک برادران شمشاد و مغزل كى ذكر كردہ توجیہات درست ہیں۔ اس جملے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔یہ اسلامی تعلیمات سے زیادہ اردو زبان کے متعلق مسئلہ ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
’’ خدا جھوٹ نہ بلوائے ‘‘ محاورتاً بولا جاتا ہے یہ الگ بات کہ اس سے بچنا ضروری ہے ۔۔
درپردہ معانی یہی ہوتے ہیں کہ چونکہ خدا جھوٹ نہیں بلواتا سو یہ بات درست یا سچ سمجھی جائے ۔۔
یعنی یہ ایک طرح کا قسمیہ جملہ ہے ۔۔۔
میرے خیال میں یہی اس دھاگہ کا اصل مقصد بھی ہے کہ اگر کوئی محاورہ، ضرب المثل یا فقرہ "اردو قواعد" کی رو سے درست بھی ہو، لیکن اسلامی نکتہ نظر سے اس میں کسی قسم کی ’’قباحت‘‘ کا اندیشہ بھی ہوتو ہر مسلمان کو اس کے استعمال سے بچنا چاہئے۔ (یہ تقویٰ ہے، کوئی فتویٰ نہیں :D ) جیسے فلاں کوتو مجھ سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ اُ س نے تو میری ہر بات کی مخالفت کرنی ہی ہے اس خط کشیدہ جملے میں بظاہر اردو قواعدکی کوئی غلطی نہیں ہے۔ اور کوئی بات ’’خلافِ اسلام‘‘ بھی نہیں ہے۔ لیکن اللہ واسطے کی محبت کے مقابلہ میں اللہ واسطہ کا بیر ، جیسا فقرہ بولناایک مومن کی شان کے خلاف لگتاہے۔ بالخصوص اُس معنی میں، جس میں یہ جملہ بولا جاتا ہے۔ اللہ واسطے کا بیر ۔۔۔ ’’بغیر کسی معقول وجہ کے‘‘ کسی کی مخالفت یا دشمنی کرنے پر بولا جاتا ہے۔
یہ میری ذاتی رائے ہے، کسی کا یا سب کااس سے متفق ہونا ضروری نہیں :biggrin:
 

شمشاد

لائبریرین
ساجد بھائی بات ان کی بھی بہت حد تک درست ہے۔

اردو زبان چونکہ لشکری زبان ہے اور اس میں حصہ ڈالنے والے مختلف مذہبوں اور مختلف قومیتوں کے لوگوں نے حصہ لیا تو اپنے مذہب کو اونچا کرنے اور دوسرے مذاہب کو نیچے کرنے کو بہت سے محاورے اس میں شامل کیے گئے، مثلاً بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا، جبکہ ہندوؤں کے نزدیک دریائے گنگا بہت محترم ہے۔ وہ اس کو بہتے دریا میں ہاتھ دھونا کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی نے "زید، عمر، بکر" کا اضافہ کیا۔ مثلاً کسی کی مثال دیتے ہوئے فلاں فلاں کی جگہ زید، عمر، بکر کہتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کے نزدیک یہ نام انتہائی محترم اور قابل احترام ہیں۔

ہمیں بھی چاہیے کہ ایسے محاورں سے پرہیز کریں اور ہو سکے تو اپنی تعلیمی نصاب میں سے محاروں کو نکال دینا چاہیے۔
 

ساجد

محفلین
برادرانِ عزیز ، میں اپنی بات کو وہیں تک محدود رکھوں گا جس کی بنیاد پر یہ دھاگہ شروع کیا گیا۔ بہ ایں ہمہ اگر ہمیں اپنی سوچ کو اس ڈگر پہ رکھنا ہے جس کا خدشہ ظاہر کر کے ان کلمات کو اسلامی عقائد سے متصادم اور کسی حد تک دائرہ اسلام سے نکلنے کا ممکنہ سبب بننے کا عندیہ قرار دیا گیا ہے تو اسلامی عقائد کی تفصیل پر مبنی درج ذیل کلمات پر غور فرمائیں۔
اٰمَنْتُ بِاﷲِوَمَلائکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ وَالْیوْمِ الْاٰخِرِ
وَالْقَدْرِخَیْر ِہ وَشَرِّہ مِنَ اﷲِتَعَالٰی
وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ
غور فرمائیے کہ سرخ الفاظ کا "دوسرا" مطلب معاملے کو کہاں سے کہاں لے جا سکتا ہے۔ تو کیا ضرورت ہے کہ ہم ہر بات کو "دوسرے" زاویہ سے دیکھیں؟۔ عرض ہے کہ "دوسرا" بہت خطرناک ہوتا ہے مذہب میں ہو یا کرکٹ میں۔ اس سے بچ کر رہنا ہی بہتر ہے:) ۔
جو کوئی بھی اللہ ، بھگوان ، ایشور ، گاڈ ، رام ، خداوند کو مانتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کا مسجود اسے جھوٹ کا حکم نہیں دیتا اور جو مسجود کا ہی قائل نہیں وہ اس بحث میں ہی نہیں پڑتا ۔ سو اس بات کو اس قدر اہمیت دینے کا کوئی جواز نہیں۔ اس کو مذہبی مسئلہ نہ سمجھا جائے۔
 
ساجد بھائی بات ان کی بھی بہت حد تک درست ہے۔
اردو زبان چونکہ لشکری زبان ہے اور اس میں حصہ ڈالنے والے مختلف مذہبوں اور مختلف قومیتوں کے لوگوں نے حصہ لیا تو اپنے مذہب کو اونچا کرنے اور دوسرے مذاہب کو نیچے کرنے کو بہت سے محاورے اس میں شامل کیے گئے، مثلاً بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا، جبکہ ہندوؤں کے نزدیک دریائے گنگا بہت محترم ہے۔ وہ اس کو بہتے دریا میں ہاتھ دھونا کہتے ہیں۔
اسی طرح کسی نے "زید، عمر، بکر" کا اضافہ کیا۔ مثلاً کسی کی مثال دیتے ہوئے فلاں فلاں کی جگہ زید، عمر، بکر کہتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کے نزدیک یہ نام انتہائی محترم اور قابل احترام ہیں۔
ہمیں بھی چاہیے کہ ایسے محاورں سے پرہیز کریں اور ہو سکے تو اپنی تعلیمی نصاب میں سے محاروں کو نکال دینا چاہیے۔
صاحب موضوع نے ايك خاص جملے كے بارے ميں استفسار كيا تھا اس ليے ميرى گفتگو اسى تك محدود رہی البتہ اس بات پر عرض كرنا چاہوں گی كہ ان تين ناموں كا استعمال كسى سازش يا بدنيتى كا نتيجہ نہيں ۔ دراصل عربى نحو كے لحاظ سے يہ تين محتلف قسم كے معرفه ناموں كے نمائندہ ہيں جن پر اعراب مختلف طرح سے اثر انداز ہو كر ان كى ظاہرى شكل ميں تبديلى لاتے ہيں اس ليے يہ معروف ہو گئے۔ مثلا زيدٌ ، زيداً، زيدِِ ہو سكتا ہے ليكن "عمر "كبھی "عمراً" نہيں ہوتا ۔ طلبه علم كو سمجھانے كے ليے عموما يہ سيٹ يونہی استعمال ہو جاتا ہے ليكن جدت پسند اساتذہ يكسانيت سے بچنے كے ليے اور نام بھی استعمال كرتے ہيں۔
ايك اور بات عرض كروں اس سیٹ کا تيسرا معروف نام "عمرو" ہے "عمر" نہيں۔ يعنى زيد ، بكر ، عمرو۔
 
اٰمَنْتُ بِاﷲِوَمَلائکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ وَالْیوْمِ الْاٰخِرِ
وَالْقَدْرِخَیْر ِہ وَشَرِّہ مِنَ اﷲِتَعَالٰی
وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ
غور فرمائیے کہ سرخ الفاظ کا "دوسرا" مطلب معاملے کو کہاں سے کہاں لے جا سکتا ہے۔ تو کیا ضرورت ہے کہ ہم ہر بات کو "دوسرے" زاویہ سے دیکھیں؟۔ عرض ہے کہ "دوسرا" بہت خطرناک ہوتا ہے مذہب میں ہو یا کرکٹ میں۔ اس سے بچ کر رہنا ہی بہتر ہے:) ۔
سو اس بات کو اس قدر اہمیت دینے کا کوئی جواز نہیں۔ اس کو مذہبی مسئلہ نہ سمجھا جائے۔
آپ كى آخرى بات سے سو فى صد متفق ہوں ليكن سرخ كردہ الفاظ كى اس ترتيب كا مجھے علم نہيں۔ اگر حوالہ مل جائے تو اچھا ہے۔
 
عجيب بات ہے عربى ميں "بغض فى اللہ" كہنے سے مومن كى شان كو فرق نہيں پڑتا تو اردو ميں اسى كا مفہوم "اللہ واسطے کا بیر" كہنے سے مومن كى شان كو كيا ہوتا ہے؟ ان موشگافيوں ميں ايمان ، مومن اور اسلام كى بلاوجہ شامت آئی ہوئى ہے۔نيم ملا خطرہء ايمان عين اسلامى محاوره ہے ۔
میرے خیال میں یہی اس دھاگہ کا اصل مقصد بھی ہے کہ اگر کوئی محاورہ، ضرب المثل یا فقرہ "اردو قواعد" کی رو سے درست بھی ہو، لیکن اسلامی نکتہ نظر سے اس میں کسی قسم کی ’’قباحت‘‘ کا اندیشہ بھی ہوتو ہر مسلمان کو اس کے استعمال سے بچنا چاہئے۔ (یہ تقویٰ ہے، کوئی فتویٰ نہیں :D ) جیسے فلاں کوتو مجھ سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ اُ س نے تو میری ہر بات کی مخالفت کرنی ہی ہے اس خط کشیدہ جملے میں بظاہر اردو قواعدکی کوئی غلطی نہیں ہے۔ اور کوئی بات ’’خلافِ اسلام‘‘ بھی نہیں ہے۔ لیکن اللہ واسطے کی محبت کے مقابلہ میں اللہ واسطہ کا بیر ، جیسا فقرہ بولناایک مومن کی شان کے خلاف لگتاہے۔ بالخصوص اُس معنی میں، جس میں یہ جملہ بولا جاتا ہے۔ اللہ واسطے کا بیر ۔۔۔ ’’بغیر کسی معقول وجہ کے‘‘ کسی کی مخالفت یا دشمنی کرنے پر بولا جاتا ہے۔
یہ میری ذاتی رائے ہے، کسی کا یا سب کااس سے متفق ہونا ضروری نہیں :biggrin:
 

ساجد

محفلین
آپ كى آخرى بات سے سو فى صد متفق ہوں ليكن سرخ كردہ الفاظ كى اس ترتيب كا مجھے علم نہيں۔ اگر حوالہ مل جائے تو اچھا ہے۔
عزیز بہن ، یہ کلمات "ایمان مفصل" کے نام سے بچوں کو مدارس اور مساجد میں یاد کروائے جاتے تھے۔ ان میں ان کی ترتیب یہی ہوتی تھی۔ یہ کلمات ، بعینہم ، نہ تو رسول اکرم علیہ صلوۃ والسلام سے موسوم و منقول ہیں اور نہ ہی ان کو اس طرح ادا کئے بغیر عقائد اسلامیہ میں کوئی کمی بیشی ہوتی ہے۔ چونکہ ہمارے پاکستان میں ان کا بہت چرچا ہے اس لئے بات سمجھانے کے لئے ان کی مثال دی گئی ہے۔
 
بھائى صرف اتنا عرض كر دوں كہ بحث مكمل ہونے تك كوئى نتيجہ كم از كم اسلام اور اردو كے متعلق نہ نكاليے۔ يا تو باقاعدہ ماہرین زبان اور ماہرین اسلام سے رجوع كيجیے تا كہ سنجيدہ علمى فيصلہ ہو۔ انکل الف عین پلیز آپ ضرور اس بحث کو دیکھیے۔
گویا کہ اب اردو زبان کی بھی اسلامائزیشن کی جانی چاہئیے :)۔
 
موشگافیوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔۔۔۔اگر کوئی بھی اوسط درجے کی ذہانت کا انسان موشگافیوں پر اتر آئے تو ہر بات اور ہر عبارت میں سے منفی مفہوم برآمد کرسکتا ہے۔۔۔اور اگر یہی رویہ فقہاء میں بھی در آئے، تو نتیجہ کافی مضحکہ خیز فتووں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔۔۔اور ہو بھی رہا ہے۔:)
 
Top