ہڑپہ آبائی پراجیکٹ

زیک

مسافر
میں کچہ عرصہ سے محفل سے غیرحاضر ہوں۔ اس کی وجہ کئ مصروفیات ہیں مگر ایک بڑی وجہ میرا نیا پراجیکٹ ہڑپہ آبائ پراجیکٹ ہے۔

محفل کی چھٹی سالگرہ کے حوالے سے سوچا کہ کچہ لکھا جائے مگر چونکہ محفل پر آنا ہی کافی کم تھا لہذا اپنے پراجیکٹ کے بارے میں بتانا ہی مناسب لگا کہ اس کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہی ہے۔ اس میں سائنس بھی ہے اور تاریخ بھی سو شاید کچھ لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہوں۔
 

زیک

مسافر
معذرت کہ نہ اردو لکھنے کی عادت رہی ہے اور نہ نئے کمپیوٹر پر اردو کیبورڈ اور فونٹ نصب ہیں۔ میں ذرا یہ دونوں انسٹال کر لوں پھر مزید لکھتا ہوں۔
 

زیک

مسافر
اس تھریڈ کو خطاب کہنا تو زیادتی ہو گی ابن سعید! ویسے بھی چونکہ محفل پر سال بھر کیا ہوا اس کا زیادہ علم نہیں ہے تو اردوویب کے گزرے سال پر کچھ لکھنا صحیح نہیں۔

یہ ہڑپہ آبائ پراجیکٹ کیا ہے؟ سال پہلے کی بات ہے کہ اپریل میں ڈی این اے کا دن منایا جاتا ہے۔ 2010 میں اس دن میرے دوست رازب نے ٹویٹر پر لکھا کہ 23andme دن کی مناسبت سے اپنے ٹیسٹ پر سیل لگا رہی ہے۔ میں کئ سال سے اس بارے میں سوچ رہا تھا سو فوری ڈی این اے ٹیسٹ آرڈر کر دیا۔

اس کے بعد کے کئ ہفتے اپنے نتائج کا مطالعہ کرنے میں لگے۔
 

زیک

مسافر
ہم ڈی این اے سے کیا معلومات حاصل کر سکتے ہیں؟ جینز ہماری صحت اور جسمانی اوصاف کے متعلق بہت سی باتیں بتاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کئ بیماریاں موروثی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ مہلک بیماریوں کے متعلق تو سائنسدانوں نے تحقیق کی ہے کہ کونسی جین بیماری کے چانس کو بڑھا دیتی ہے اور کونسی کم کرتی ہے۔

اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں انسان کا قد بھی زیادہ تر موروثی ہی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ایسا نہیں ہے کیونکہ قد کے پیچھے ایک وجہ آپ اور آپ کے والدین کی خوراک بھی ہے۔ لہذا ترقی پذیر ممالک میں ماحول یعنی خوارک وغیرہ بھی قد متعین کرنے میں کافی اہم ہیں۔ اگرچہ قد زیادہ موروثی ہے مگر اس کی ایک جین نہیں ہے بلکہ کافی جینز قد پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ڈھونڈی جا چکی ہیں۔

تئیس اور میں اپنے صارفین کو ان کے ڈی این اے اور جینز کے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے۔ ویسے تو کمپنی کا نام ہی زبردست ہے کہ انسان کے خلیوں میں 23 کروموسوم جوڑے ہوتے ہیں۔ یہ کمپنی آپ کو ایک ٹیوب بھیجتی ہے جس میں آپ تھوک کو بند کر کے واپس بھیج دیتے ہیں۔ پھر اس تھوک سے آپ کے سیل یا خلئے نکال کر آپ کا ڈی این اے علیحدہ کیا جاتا ہے اور اس کے نتائج کچھ ہفتوں بعد 23andme کے ویب سائٹ پر اپلوڈ ہو جاتے ہیں۔

ویب سائٹ پر انہوں نے مختلف جینز پر کی گئ تحقیق کو اکٹھا کیا ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مختلف بیماریوں کا آپ کا کیا چانس ہے۔ اسی طرح یہ کہ آپ کا بلڈ گروپ کیا ہے یا آپ کے بال کس رنگ کے ہو سکتے ہیں یا سیدے یا گھنگریالے ہیں۔ کچھ دوائیوں کا اثر مختلف لوگوں پر فرق فرق ہوتا ہے جینز کی وجہ سے۔ اس بارے میں بھی معلومات دستیاب ہیں۔

ان سب معلومات کے ساتھ ایک سٹار ریٹنگ ہے کہ یہ اندازے کتنے درست ہو سکتے ہیں۔ کیا یہ تحقیق سے بار بار ثابت ہوا ہے یا صرف ایک پیپر چھپا ہے۔
 

زیک

مسافر
صحت وغیرہ سے متعلق معلومات سے زیادہ جو بات مزے کی لگی وہ نسب سے متعلق معلومات تھیں۔ میں شاید پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ میں اپنے شجرہ نسب پر کام کرتا رہا ہوں۔ اس لئے بھی میری اس میں کافی دلچسپی تھی۔

چونکہ ہم اپنا ڈی این اے آدھا آدھا اپنے باپ اور ماں سے لیتے ہیں اس لئے ہمارے ڈی این اے سے یہ بتانا ممکن ہے کہ ہم کس سے کون کے رشتے میں منسلک ہیں اور کس قبیلے یا گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ قریب کے رشتہ داروں میں ڈی این اے کا موازنہ کر کے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ ان کا آپس میں کیا رشتہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہر شخص اپنے والدین سے آدھی جینز شیئر کرتا ہے۔ اسی طرح بہن بھائ تقریبا آدھی جینز شیئر کرتے ہیں۔ آپ اپنے ماموں یا چچا سے چوتھائ جینز شیئر کرتے ہیں اور فرسٹ کزن سے آٹھواں حصہ۔

اس طرح بہت سے لوگ اپنے شجرہ نسب پر تحقیق کرتے ہوئے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد لیتے ہیں کہ اس طرح مزید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

مگر یہ معلومات صرف قریبی رشتہ داروں تک محدود نہیں ہیں۔ تمام انسانوں کے ڈی این اے کا بیشتر حصہ ایک جیسا ہے بلکہ بہت سا حصہ دوسرے جانوروں سے بھی ملتا ہے۔ مگر انسانوں کے ڈی این اے میں جو تغیر ہے وہ random نہیں ہے بلکہ کچھ حد تک ان کے نسب سے correlated ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈی این اے کی statistical processing کر کے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آیا کسی انسان کا تعلق یورپ سے ہے یا افریقہ سے یا مشرقی ایشیا سے۔
 

زیک

مسافر
چونکہ جینیاتی ریسرچ زیادہ تر یورپ اور امریکہ میں ہو رہی ہے اس لئے ریسرچ کے لئے ڈی این اے بھی امریکیوں اور یورپین ہی کا استعمال ہوتا ہے اور بہت سی چیزوں میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ دوسری نسلوں پر بھی لاگو ہوتی ہیں یا نہیں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا میں پرمٹ راج کی وجہ سے وہاں سے کم ہی ڈی این اے ریسرچ کے لئے اکٹھا کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اس سال ہزار جینوم کا ارداہ تھا کہ انڈیا اور پاکستان سے ان علاقوں سے سو سو افراد کا ڈی این اے اکٹھا کیا جائے: لاہور، حیدرآباد دکن، آسام، کلکتہ اور بمبئ۔ مگر اس میں کامیابی نہیں ہوئ اور اب لاہور، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے لوگوں کا ڈی این اے لیا جائے گا۔

پچھلے کچھ عرصے میں کئ ریسرچ گروپس نے ڈی این اے ڈیٹا اکٹھا کر کے عام ریلیز کیا ہے۔ ہیپ میپ میں بر صغیر کے لوگوں میں ہیوسٹن سے لئے گئے گجراتی موجود ہیں جبکہ ہیومن جینوم ڈائیورسٹی پینل میں پاکستان سے براہوی، بلوچ، ہزارہ، مکرانی، سندھی، پٹھان، کیلاش اور بروشو شامل ہیں۔

اسی طرح کئ ریسرچ سافٹویر بھی پبلک ہیں جیسے پلنک، ایڈمکسچر، سٹرکچر اور آئیگن سافٹ وغیرہ۔

ان سب کے نتیجے میں اور لوگوں کا اپنے اور اپنے آبا کے بارے میں تجسس کے سبب کئ جینوم بلاگر منظر عام پر آئے۔

جینوم بلاگرز میں سے میں ڈوڈیکاڈ اور یوروجینز سے متاثر ہوا۔ ڈوڈیکاڈ کا فوکس جنوب مشرقی یورپ ہے اور یوروجینز کا شمالی یورپ۔

بر صغیر اور اس کے گرد و نواح میں ڈیڑھ ارب کے قریب لوگ بستے ہیں۔ لہذا مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی ایک جینوم بلاگر بن جاؤں اور بر صغیر کے ڈی این اے سے وہاں کی تاریخ پر کچھ ریسرچ کروں۔ میں اپنے ڈی این اے پر کام تو کر ہی رہا تھا اس طرح میرے پاس مزید ڈیٹا آ جائے گا اور میں بہتر انداز میں معلومات حاصل کر سکوں گا۔ دوسرے جنوبی ایشیا کی آبائ تاریخ پر اتنی توجہ نہیں ہے جتنی یورپ وغیرہ پر تو اس طرح کافی لوگوں کو بھی اپنے آبائ تعلق کے متعلق معلومات مل جائیں گی۔
 

زیک

مسافر
دسمبر 2010 کا مہینہ ان سافٹویرز اور ڈیٹا سے کھیلتے گزارا اور جنوری 2011 میں اعلان کر دیا کہ لوگ مجھے اپنا جینیاتی ڈیٹا بھیجیں۔ میں نے جنوبی ایشیا اور اس کے گرد و نواح میں ان علاقوں کو شامل کیا:
  1. افغانستان
  2. بنگلہ دیش
  3. بھٹان
  4. برما
  5. انڈیا
  6. ایران
  7. مالدیپ
  8. نیپال
  9. پاکستان
  10. سری لنکا
  11. تبت

پھر کچھ دنوں بعد اس پراجیکٹ کے لئے نیا ڈومین بھی لے لیا۔

پہلے ہی ہفتے میں مجھے گیارہ لوگوں کا ڈیٹا مل گیا۔

اب تک ساڑھے چھ ماہ میں میرے پاس 159 لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ریسرچرز سے ان کا انڈین ڈی این اے ڈیٹا بھی مجھے مل گیا ہے۔

اس تمام ڈیٹا سے میں نے اور دوسروں نے کیا نتائج اخذ کئے ہیں ان کا ذکر اگلی پوسٹ میں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اللہ خیر کرے اس کام میں تو زیک سیدھے سے اُلٹے ہو گئے ہیں، آگے کیا ہو گا؟
 

mfdarvesh

محفلین
وہ دراصل یہ چاہتے ہیں کہ الٹا ہوکے ڈی این اے سیدھا نظر آجائے، ہوبھی سکتا ہے
 

محمد مسلم

محفلین
مزیدار چیز لکھ رہے ہیں،ہم بھی انتظار میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بھی اپنے آباء و اجداد کے بارے میں جاننے کے بارے میں بے تاب ہیں۔
 

عسکری

معطل
اس لیئے میں پوسٹ کرنے سے پہلے کاپی مار لیتا ہوں کئی بار ایسا ہوا تھا میرے ساتھ ۔ میں تو دوبارہ لکھ بھی نہیں سکتا اسے پھر :noxxx:
 
تھوڑی تھوڑی دیر بعد کنٹرول اے اور کنٹرول سی ہماری عادت کا حصہ ہے۔ پھر بھی بعض حالات میں بیک جا کر ٹیکسٹ باکس میں فوکس کرکے کنٹرول زی سے کام بن جاتا ہے۔ :)
 

زیک

مسافر
بر صغیر کے جینیاتی نسب کے بارے میں اہم ترین ریسرچ ۲ سال پہلے نیچر میں چھپی تھی۔ پروفیسر رائک اور ان کے ساتھیوں کا پیپر تھا Reconstructing Indian population history۔ اس پیپر میں انہوں نے ثابت کیا کہ بر صغیر کے زیادہ تر لوگ (شمال مشرقی انڈیا وغیرہ کو چھوڑ کر) انہیں دو قدیم آبادیوں سے جوڑا جا سکتا ہے۔ تمام گروہوں میں ان دونوں قدیم آبادیوں کا کچھ تناسب ہے۔

ایک قدیم آبادی آبائ جنوبی انڈین کہی جا سکتی ہے۔ یہ جنوب مشرقی ایشیائ آبادیوں سے کچھ ملتے لوگ تھے مگر ان اور یورپین سے کافی مختلف بھی تھے۔ آجکل یہ قدیم آبادی خالص شکل میں موجود نہیں ہے۔ ان کے قریب ترین گروہ انڈامان جزائر کا اونگ قبیلہ ہے۔

دوسری قدیم آبادی آبائ شمالی انڈین کہی جا سکتی ہے۔ یہ لوگ مغربی ایشیا اور پورپ کے لوگوں سے کافی ملتے تھے۔ ڈیوڈ رائک انہیں جرمنی اور برطانیہ کے لوگوں سے قریب بتاتا ہے مگر میرا اور کچھ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ آبائ شمالی انڈین مغربی ایشیا اور مشرقی یورپ کے لوگوں سے زیادہ ملتے تھے۔

اگرچہ ہم نے آبائ آبادیوں کو شمالی اور جنوبی انڈیا میں تقسیم کیا مگر برصغیر کے لوگوں میں دونوں آبائ جینز پائ جاتی ہیں۔ جنوبی ہندوستان کے قبائلیوں میں آبائ جنوبی انڈین نسب کا تناسب سب سے زیادہ ہے یعنی ۶۰ فیصد تک جبکہ شمال مغربی ہندوستان اور پاکستان میں آبائ شمالی انڈین نسب زیادہ ہے زیادہ سے زیادہ ۸۰ فیصد تک۔

اب مختلف گروہوں کا پرنسپل کمپوننٹ انالسس دیکھتے ہیں:

indiareich5.png


آپ دیکھ سکتے ہیں کہ زیادہ تر انڈین گروہ قریباً ایک ترچھی لائن میں ہیں۔ اوپر جنوبی ہندوستان کے لوگ اور نیچے شمالی مغربی ہندوستان کے۔

اسی گراف کو اگر ذرا زوم کر کے دیکھا جائے تو

indiareich7.png


یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جغرافیائ فرق کے علاوہ ایک اور اہم چیز ذات بھی ہے۔ اونچی ذات کے لوگوں میں آبائ شمالی انڈین کا تناسب نیچی ذات والوں سے کچھ زیادہ ہے۔ مگر پھر بھی جنوبی انذیا کے برہمنوں میں آبائ شمالی انڈین نسب کا تناسب شمالی ہندوستان کی نچلی ذاتوں سے کم ہے۔

اس کے علاوہ کچھ ہندوستانی گروہ مشرقی ایشیا یعنی تبت، چین، برما وغیرہ کے لوگوں سے کچھ ملتے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہیں جو گراف میں ایک لائن میں نہیں۔

جو گروہ اس گراف میں شامل تھے وہ انڈیا میں کہاں رہتے ہیں آپ اس تصویر میں دیکھ سکتے ہیں

nature08365-f1.2.jpg


بر صغیر کی آبادیوں کا آبائ شمالی انڈین (ANI) تناسب یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

یہاں آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ پٹھان ایک ایرانی زبان بولتے ہیں اور سندھی ایک انڈو آریائ زبان مگر ان دونوں گروہوں کے آبائ شمالی انڈین اور آبائ جنوبی انڈین تناسب میں کوئ خاص فرق نہیں ہے۔ پٹھان بھی شمال مغربی بر صغیر کی باقی آبادیوں جیسے ہیں اور ایرانیوں یا وسط ایشیا کے لوگوں سے کافی مختلف۔ یہی چیز آپ اس گراف میں دیکھ سکتے ہیں

nature08365-s119.png


اس پیپر کے بنیادی اصولوں کو لیکر ہی میں نے اپنا کام کیا ہے جس پر مزید روشنی جلد ڈالنے کی کوشش کروں گا۔
 
Top