شہاب نامہ کی حقیقت

AMERICAN

محفلین
کیا آئن لائن شہاب نامہ دستیاب ہے۔ میںپہلے بھی ایک دفعہ پڑھ چکا ہوں اب دوبارہ پڑھنا چاہتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
کم از کم اردو محفل میں ابھی دستیاب نہیں ہے۔ لیکن برقیانے کا منصوبہ ضرور ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
یقینا" شہاب نامہ ایک عظیم کتاب ہوگی لیکن اسکے ایک باب "بملا کماری کی روح" کی اگر کوئی صاحب توجیہہ کر سکیں تو بہت نوازش ہوگی - میں نے جب وہ باب پڑھا تو مجھے ایسے لگا کہ میں ایک انگریزی فلم "Evil Dead" دیکھ رہا ہوں - اگر وہ باب سچا ہے تو خوب اور اگر جھوٹا تو شہاب صاحب کو ڈراؤنی فلموں کی کہانیاں‌لکھنی چاھئے تھیں-
 

سویدا

محفلین
مشفق خواجہ مرحوم نے شہاب نامے پر ایک مضمون لکھا تھا جو پرسوں رات کو میرے مطالعے سے گذرا
آج کوشش کروں گا کہ اسے یہاں پیش کروں ابھی فی الحال آفس میں ہوں اس لیے ممکن نہیں ہے
 

راشد اشرف

محفلین
ابھی گذشتہ ہفتہ دہلی سے ، پاکستانی مطبوعہ ایک کتاب دیکھی ، “ شہاب نامہ کی حقیقت “
مصنف : عرفان احمد خان
ناشر حید پبلیکیشنز لاہور
مصنف کے بقول شہاب صاحب نے کتاب کے ذریعہ حقائق کو چھپانے اور اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ، تفصیلی مطالعہ جاری ہے ۔ کیا دوستان محفل کو اس کی خبر ہے ؟

کیا آپ شہاب نامہ کی حقیقت کو اسکین کرپائے ہیں ؟ اگرس کی پی ڈی ایف مل سکے تو ممنون رہوں گا۔ اس سلسلے میں ایک دوسری کتاب بھی ہے، سیف اللہ خالد کی "شہاب بے نقاب"۔
چند روز قبل کراچی کے ادبی مجلے اجراء کا تازہ شمارہ شائع ہوا ہے۔ اس مین ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا طویل مضمون "شہاب نامہ کی حقیقت" شامل ہے۔ احباب کی پر زور فرمائش پر اسے فیس بک پر شامل کیا ہے جبکہ دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس مثلا بزم قلم وغیرہ پر بھی شامل کیا ہے۔
 

راشد اشرف

محفلین
جن احباب کو ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا مضمون درکار ہو، ذاتی پیغام میں جاکر اپنا ای میل درج کریں، مضمون بھیج دیا جائے گا
 

راشد اشرف

محفلین
بزم قلم پر راقم کا کچھ دیر قبل شامل کیا گیا نوٹ:

کراچی سے جناب احسن سلیم کی زیر ادارت سہ ماہی اجراء کا تازہ شمارہ (جولائی تا اکتوبر 2012) شائع ہوگیا ہے۔ کل 576 صفحات پر مشتمل شمارے کی قیمت 400 روپے ہے اور یہ اردو بازار کراچی میں ویلکم بک پورٹ پر دستیاب ہے۔

ادبی جریدوں میں چونکا دینے والے مضمون کی اشاعت لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ چند ماہ پیشتر "مکالمہ" میں جناب ظفر اقبال کا چونکا دینے بلکہ دہلا دینے والا مضمون "میر کے تاج محل کا ملبہ" شائع ہوکر ادبی حلقوں میں سنسنی پھیلا چکا ہے۔

اجراء کے زیر موضوع شمارے میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا مضمون "شہاب نامہ کی حقیقت" شائع ہوا ہے۔ یوں تو پرچے میں راقم الحروف کے دو عدد مضامین بھی شامل ہیں لیکن ان کا ذکر بعد میں، بیگ صاحب کے مضمون کی فرمائش سب سے پہلے اسلام آباد سے آئی، پھر کچھ فون آئے اور ہندوستان سے پہلی فرمائش کی آمد نے مجبور کردیا کہ عید کی جھٹیوں کی وجہ سے مدیر اجراء کی جانب سے راقم کے نام پرچہ بھیجے جانے میں تاخیر کو نظر انداز کرتے ہوئے بازار کا رخ کیا جائے اور فی الفور اسے حاصل کرنے کی سعی کی جائے۔

عرصہ دو برس قبل تک ہمارے علم میں تھا کہ بازار میں معروف ناشر کی جانب سے شائع کی جانے والی "شہاب نامہ" کا بائسواں ایڈیشن گردش میں ہے۔ بقول شخصے، اس کی قیمت موجودہ تناسب سے 1500 ہونی چاہیے لیکن ناشر نے بغرض "ثواب"، قیمت کم رکھی ہے۔

فیس بک پر "شہاب نامہ کی حقیقت" کی شمولیت کی دیر تھی کہ تبصروں کی بھرمار ہوگئی۔ حسب توقع ملا جلا رجحان رہا۔ بعض دوستوں نے یہ کتاب دل کی آنکھوں سے پڑھی ہے، چوم کر طاق پر رکھا ہے سو ان کا ردعمل خاصا "درست" رہا۔ (معاف کیجیے گا، صحیح لفظ درشت تھا جس کے کثرت استعمال و شدت سے نکتے اڑ گئے ہیں)، بعغ کا رویہ محتاط نظر آیا اور کئی لوگوں نے اس کے مندرجات سے من و عن اتفاق کیا بلکہ اپنی جانب سے بھی کچھ اضافہ فرمایا۔

واضح رہے کہ شہاب نامہ کی اشاعت کے بعد "شہاب بے نقاب" اور شہاب نامہ کی حقیقت" کے عنوانات سے دو عدد کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ شہاب رحمت اللہ کی خودنوشت "شہاب بیتی" سے بھی لوگ واقف ہیں۔

رئیس فاطمہ اپنے تازہ کالم میں لکھتی ہیں
"سب سے پہلے سہ ماہی ’’اجراء‘‘ کا ذکر کروں گی۔ یہ اس پرچے کا گیارہواں شمارہ ہے۔ ابتداء سے لے کر آج تک ’’اجراء‘‘ نہایت پابندی سے وقت پر شایع ہورہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ واقعی ’’سہ ماہی‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔ اس شمارے میں میری توجہ کا مرکز ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا مضمون ’’شہاب نامہ کی حقیقت‘‘ ہے، جو بہت سے نئے گوشے کھولتا ہے۔ اور بہت سے رازوں پر سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔ ہمارے بڑے بڑے ’’نامور ادیب‘‘ ذاتی مفاد کے لیے کس طرح ایک بیوروکریٹ کو صوفی اور برگزیدہ ہستی بنا دیتے ہیں۔ یہ سب آپ کو اس مضمون میں ملے گا جو بہت محنت اور توجہ سے لکھا گیا ہے۔ دوسرا بہت اچھا اور دل چسپ مضمون کمال احمد رضوی کا ’’شاگرد رشید عمر تھانوی‘‘ہے ، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان دو مضامین کے علاوہ استاد غلام علی خاں پر لکھا جانے والا مضمون بھی اپنی جگہ آپ نہایت عمدہ ہے۔ یہ مضمون دراصل مالیتی جیلانی اور قرۃ العین حیدر کے مضمون کی تلخیص ہے۔

سو دوستو!
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا مضمون "شہاب نامہ کی حقیقت" پیش خدمت ہے۔ بقیہ مضامین بھی جلد پیش کیے جائیں گے۔ اجراء کی فہرست مضامین، سرورق وغیرہ بھی علاحدہ سے پیش کیا جائے گا۔ شاگرد رشید عمر تھانوی، بڑے غلام علی خان صاحب پر مضمون خاصے کی چیز ہیں جبکہ راقم الحروف نے ممبئی کے کہانی کار جاوید صدیقی کے خاکوں کی کتاب "روشندان" پر طویل تعارفی مضمون اور جون ایلیا کی کتاب "فرنود" پر مضمون تحریر کیا ہے۔
ڈاکٹر بیگ کا وہ پیغام ہنوز راقم الحروف کے موبائل فون میں محفوظ ہے جس میں انہوں نے مضمون مذکورہ کے بارے میں کچھ باتیں لکھ بھیجی تھیں۔

خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
 
@راشد اشرف
جناب راشد اشرف صاحب سب سے پہلےآپ کا شکریہ کہ آپ نے یہ تازہ ادبی معلومات بہم پہنچائیں۔ اس بہانے آپ کے فیس بک کے صفحے سے بھی آشنائی ہو گئی اور شہاب نامہ پر مرزا حامد بیگ صاحب کا مضمون بھی پڑھ لیا۔ ڈاکٹر حامد بیگ صاحب لگتا ہے کہ ادب کے نہیں بلکہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور ان کا تخصص چیر پھاڑ یا پوسٹ پارٹم ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ان کو عام ڈاکٹروں پر فوقیت یہ حاصل ہے کہ عام ڈاکٹر مردہ لوگوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں حامد صاحب زندہ و مردہ دونوں کا، لہذا مذکورہ مضمون میں نہ صرف شہاب صاحب مرحوم (ممتاز مفتی اوراشفاق احمد کو تو شہاب صاحب کے حاشیہ برداروں میں سمجھیے)اور شاہد دہلوی مرحوم جیسے زعما ادب ان کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے بلکہ افتخار عارف بھی ان کی لپٹ میں آگے۔ طرز تحریر سے یوں لگتا ہے کہ جیسے سارا مضمون استغفر اللہ سے شروع ہوا ہو ، نعوذ باللہ پر پہلا اسٹاپ اور انا اللہ پر خاتمہ۔ اور چونکہ مضمون کی نوعیت پوسٹ مارٹم کی ہے لہذا قل شریف کا سوال ہی پیدا نہیں ۔
جو چیزیں شہاب صاحب کےبظاہر مخالفت میں ہیں ان کو ایک بین حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے اور چھان پٹک کی تو کیا بات بلکہ کچھ مبہم چیزوں کو بھی عدسہ شبہ کے نیچے رکھ کر ان کو فارنسک شواہد کے ذیل میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اور جو الزامات شہرہ آفاق ہیں ان کو لے کر جناب حامد صاحب چہارہ آفاق ناچتے نظر آتے ہیں ۔
اس مضمون کے بعد کم از کم حامد صاحب کو اپنا نام ضرور بدلنے کی ضرورت ہے حامد کی بجائے جو نام جعفر زٹلی کا دیوان کھولتے ہی نظر آئے اس کو اپنا لیں۔
ہو سکتا ہے کہ میں چند دنوں میں ( بشرط فراغت) اس مضمون پر تفصیلی اظہار خیال کروں
 

راشد اشرف

محفلین
@راشد اشرف
جناب راشد اشرف صاحب سب سے پہلےآپ کا شکریہ کہ آپ نے یہ تازہ ادبی معلومات بہم پہنچائیں۔ اس بہانے آپ کے فیس بک کے صفحے سے بھی آشنائی ہو گئی اور شہاب نامہ پر مرزا حامد بیگ صاحب کا مضمون بھی پڑھ لیا۔ ڈاکٹر حامد بیگ صاحب لگتا ہے کہ ادب کے نہیں بلکہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور ان کا تخصص چیر پھاڑ یا پوسٹ پارٹم ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ان کو عام ڈاکٹروں پر فوقیت یہ حاصل ہے کہ عام ڈاکٹر مردہ لوگوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں حامد صاحب زندہ و مردہ دونوں کا، لہذا مذکورہ مضمون میں نہ صرف شہاب صاحب مرحوم (ممتاز مفتی اوراشفاق احمد کو تو شہاب صاحب کے حاشیہ برداروں میں سمجھیے)اور شاہد دہلوی مرحوم جیسے زعما ادب ان کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے بلکہ افتخار عارف بھی ان کی لپٹ میں آگے۔ طرز تحریر سے یوں لگتا ہے کہ جیسے سارا مضمون استغفر اللہ سے شروع ہوا ہو ، نعوذ باللہ پر پہلا اسٹاپ اور انا اللہ پر خاتمہ۔ اور چونکہ مضمون کی نوعیت پوسٹ مارٹم کی ہے لہذا قل شریف کا سوال ہی پیدا نہیں ۔
جو چیزیں شہاب صاحب کےبظاہر مخالفت میں ہیں ان کو ایک بین حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے اور چھان پٹک کی تو کیا بات بلکہ کچھ مبہم چیزوں کو بھی عدسہ شبہ کے نیچے رکھ کر ان کو فارنسک شواہد کے ذیل میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اور جو الزامات شہرہ آفاق ہیں ان کو لے کر جناب حامد صاحب چہارہ آفاق ناچتے نظر آتے ہیں ۔
اس مضمون کے بعد کم از کم حامد صاحب کو اپنا نام ضرور بدلنے کی ضرورت ہے حامد کی بجائے جو نام جعفر زٹلی کا دیوان کھولتے ہی نظر آئے اس کو اپنا لیں۔
ہو سکتا ہے کہ میں چند دنوں میں ( بشرط فراغت) اس مضمون پر تفصیلی اظہار خیال کروں

جناب والا
بہت شکریہ آپ کا۔ فیس بک تک آپ کی رسائی ہوئی اور آپ نے حامد صاحب کا مضمون پڑھا۔ یقینا وہاں احباب کے درج کردہ تبصرے بھی نظر سے گزرے ہوں گے۔ کچھ نے اتفاق کیا، اکثریت نے اختلاف کیا۔ ایک صاحب نے کہا کہ یہ "شہاب نامہ کی حقیقت" نامی کتاب کی توسیع ہے۔
ڈاکٹر حامد نے مجھے بتایا ہے کہ افتخار عارف اجراء میں اس مضمون کا مناسب جواب دینے یا دلوانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں، دیکھیے کیا سامنے آتا ہے۔ حامد صاحب نے تو ایک جگہ مشفق خواجہ کو لپیٹ میں لے لیا۔
اسی نوع کا ایک مضمون چند ماہ قبل کراچی کے پرچے مکالمہ میں بھی شائع ہوا تھا۔ عنوان تھا "میر کے تاج محل کا ملبہ" اور مضمون نگار حضرت ظفر اقبال تھے۔ مضمون کیا تھا، لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ تھا ۔ ۔ ظفر صاحب نے میر سے ٹکر لی ہ، فیس بک پر میری البم میں کہیں محفوظ ہوگا۔ جواب میں کراچی کے ادبی مجلے کے مدیر نے خاکسار سے اس کا جواب لکھوایا، یہاں ملاحظہ ہو:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/میر-کے-تاج-محل-کا-ملبہ-یا-ظفر-اقبال-کے-ملبے-کا-تاج-محل.50469/
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اسے اپنے پرچے میں شائع نہیں کیا گرچہ مذکورہ پرچے کے تازہ شمارے میں میرے دو طویل مضامین شامل ہیں۔ دوسری جانب شمس الرحمان فاروقی صاحب نے اس مضمون کی ان پیج فائل طلب کی اور کہا کہ اسے خبرنامہ شب خون، الہ آباد میں شائع کریں گے لیکن تاحال وہ بھی اسے شائع نہیں کرپائٰں ہیں کہ آخر جدیدیت کے بلند کیے ہوئے انہی کے جھنڈے پر گزشتہ کئی دہائیوں سے ظفر اقبال براجماں ہیں۔
 

پپو

محفلین
مشفق خواجہ مرحوم نے شہاب نامے پر ایک مضمون لکھا تھا جو پرسوں رات کو میرے مطالعے سے گذرا
آج کوشش کروں گا کہ اسے یہاں پیش کروں ابھی فی الحال آفس میں ہوں اس لیے ممکن نہیں ہے
منتظر رہونگا اگر ہو سکے تو مجھے ٹیگ کردینا بھائی جی
 
Top